كِتَابُ الْكُسُوفِ نَوْعٌ آخَرُ صحيح أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَقَ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو زَيْدٍ سَعِيدُ بْنُ الرَّبِيعِ قَالَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو حَفْصَةَ مَوْلَى عَائِشَةَ أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّهُ لَمَّا كَسَفَتْ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ وَأَمَرَ فَنُودِيَ أَنَّ الصَّلَاةَ جَامِعَةٌ فَقَامَ فَأَطَالَ الْقِيَامَ فِي صَلَاتِهِ قَالَتْ عَائِشَةُ فَحَسِبْتُ قَرَأَ سُورَةَ الْبَقَرَةِ ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ ثُمَّ قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ثُمَّ قَامَ مِثْلَ مَا قَامَ وَلَمْ يَسْجُدْ ثُمَّ رَكَعَ فَسَجَدَ ثُمَّ قَامَ فَصَنَعَ مِثْلَ مَا صَنَعَ رَكْعَتَيْنِ وَسَجْدَةً ثُمَّ جَلَسَ وَجُلِّيَ عَنْ الشَّمْسِ
کتاب: گرھن کے متعلق احکام و مسائل
نماز کسوف کی ایک اور صورت
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بتاتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں سورج کو گرہن لگا تو آپ نے وضو فرمایا اور حکم دیا تو اعلان کیا گیا کہ نماز کی جماعت ہونی ہے، پھر آپ نے قیام شروع فرمایا اور نماز میں بہت لمبا قیام فرمایا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میرا اندازہ ہے کہ آپ نے سورۂ بقرہ پڑھی، پھر آپ نے رکوع فرمایا اور لمبا رکوع فرمایا، پھر فرمایا: سمع اللہ لمن حمدہ ، پھر قیام کیا جس طرح پہلا قیام فرمایا تھا۔ سجدہ نہیں کیا، پھر رکوع میں گئے، پھر سجدہ کیا، پھر کھڑے ہوئے اور اس رکعت میں بھی پہلی رکعت کی طرح دو رکوع اور دو سجدے کیے، پھر (تشہد میں) بیٹھے۔ اتنے میں سورج بھی روشن ہوگیا۔
تشریح :
(۱)’’میرا اندازہ ہے۔‘‘ اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ نماز کسوف میں قراءت آہستہ ہونی چاہیے۔ اگر آپ جہر فرماتے تو اندازہ لگانے کی کیا ضرورت تھی؟ حالانکہ آگے صریح روایت (۱۴۹۵) آرہی ہے کہ آپ نے بلند آواز سے قراءت کی اور وہ روایت بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے ہے۔ اور وہ صحیحین کی روایت ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاری، الکسوف، حدیث:۶۰۶۵ و صحیح مسلم، الکسوف، حدیث:(۵)۔ ۹۰۱) صریح روایت کے مقابلے میں جو اصح بھی ہے، ایک مبہم روایت کو ترجیح نہیں دی جاسکتی۔ بلکہ صریح روایت کو ترجیح ہوگی یا تطبیق دی جائے گی کہ آپ نے قراءت جہراً کی تھی مگر مجمع زیادہ دور ہونے کی وجہ سے قراء ت سنائی نہیں دے سکتی تھی۔ یا دور والوں کو آواز تو سنائی دیتی تھی مگر سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ آپ کیا پڑھ رہے ہیں؟ تبھی تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جہر کی روایت بھی بیان فرماتی ہیں اور اندازہ بھی لگا رہی ہیں۔ بعض اہل علم نے یہ تطبیق بیان کی ہے کہ طولِ زمانہ کی وجہ سے آپ کو یادنہ رہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا قراءت کی تھی، اس لیے تخمینہ بیان کیا لیکن پہلی بات ہی درست ہے۔ (۲)اس روایت اور روایت نمبر ۱۴۸۰ میں اختصار ہے کہ دو سجدوں کی تفصیل نہیں صرف سجدے کا ذکر ہے کیونکہ نماز کسوف عام نماز سے صرف رکوع میں مختلف ہے، اس لیے رکوع کی تفصیل بیان کردی کہ وہ ایک رکعت میں دو تھے مگر سجدے تو اتفاقاً ہر نماز میں ایک رکعت میں دو ہی ہیں، لہٰذا اسے مبہم ذکر کردیا۔ کوئی شخص بھی ایک سجدے کا قائل نہیں۔ امام صاحب نے شاید ظاہر الفاظ کے پیش نظر اسے ’’ایک اور صورت‘‘ بنادیا ، ورنہ یہ کوئی صورت نہیں، نیز ایک قول یہ بھی ہے کہ یہاں تصحیف واقع ہوئی ہے۔ اصل میں فی سجدۃ تھا، غلطی سے وسجدۃ ہوگیا یا وسجدتین سے وسجدۃ ہوگیا جو یقیناً غلطی ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے: (ذخیرہ العقبٰی شرح سنن النسائی: ۱۶؍۴۳۳)
(۱)’’میرا اندازہ ہے۔‘‘ اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ نماز کسوف میں قراءت آہستہ ہونی چاہیے۔ اگر آپ جہر فرماتے تو اندازہ لگانے کی کیا ضرورت تھی؟ حالانکہ آگے صریح روایت (۱۴۹۵) آرہی ہے کہ آپ نے بلند آواز سے قراءت کی اور وہ روایت بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے ہے۔ اور وہ صحیحین کی روایت ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاری، الکسوف، حدیث:۶۰۶۵ و صحیح مسلم، الکسوف، حدیث:(۵)۔ ۹۰۱) صریح روایت کے مقابلے میں جو اصح بھی ہے، ایک مبہم روایت کو ترجیح نہیں دی جاسکتی۔ بلکہ صریح روایت کو ترجیح ہوگی یا تطبیق دی جائے گی کہ آپ نے قراءت جہراً کی تھی مگر مجمع زیادہ دور ہونے کی وجہ سے قراء ت سنائی نہیں دے سکتی تھی۔ یا دور والوں کو آواز تو سنائی دیتی تھی مگر سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ آپ کیا پڑھ رہے ہیں؟ تبھی تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جہر کی روایت بھی بیان فرماتی ہیں اور اندازہ بھی لگا رہی ہیں۔ بعض اہل علم نے یہ تطبیق بیان کی ہے کہ طولِ زمانہ کی وجہ سے آپ کو یادنہ رہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا قراءت کی تھی، اس لیے تخمینہ بیان کیا لیکن پہلی بات ہی درست ہے۔ (۲)اس روایت اور روایت نمبر ۱۴۸۰ میں اختصار ہے کہ دو سجدوں کی تفصیل نہیں صرف سجدے کا ذکر ہے کیونکہ نماز کسوف عام نماز سے صرف رکوع میں مختلف ہے، اس لیے رکوع کی تفصیل بیان کردی کہ وہ ایک رکعت میں دو تھے مگر سجدے تو اتفاقاً ہر نماز میں ایک رکعت میں دو ہی ہیں، لہٰذا اسے مبہم ذکر کردیا۔ کوئی شخص بھی ایک سجدے کا قائل نہیں۔ امام صاحب نے شاید ظاہر الفاظ کے پیش نظر اسے ’’ایک اور صورت‘‘ بنادیا ، ورنہ یہ کوئی صورت نہیں، نیز ایک قول یہ بھی ہے کہ یہاں تصحیف واقع ہوئی ہے۔ اصل میں فی سجدۃ تھا، غلطی سے وسجدۃ ہوگیا یا وسجدتین سے وسجدۃ ہوگیا جو یقیناً غلطی ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے: (ذخیرہ العقبٰی شرح سنن النسائی: ۱۶؍۴۳۳)