كِتَابُ الْكُسُوفِ بَاب الْأَمْرِ بِالنِّدَاءِ لِصَلَاةِ الْكُسُوفِ صحيح أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ خَسَفَتْ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنَادِيًا يُنَادِي أَنْ الصَّلَاةَ جَامِعَةً فَاجْتَمَعُوا وَاصْطَفُّوا فَصَلَّى بِهِمْ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ فِي رَكْعَتَيْنِ وَأَرْبَعَ سَجَدَاتٍ
کتاب: گرھن کے متعلق احکام و مسائل
گرہن کی نماز کے لیے اعلان کرنے کا حکم
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں سورج کو گرہن لگ گیا۔ تو آپ نے ایک اعلان کرنے والے کو حکم دیا کہ وہ یہ اعلان کرے کہ نماز (نماز کسوف) کے لیے جمع ہو جائیں۔ لوگ جمع ہوگئے اور انھوں نے صف بندی کی تو آپ نے انھیں دو رکعتیں چار رکوع اور چار سجدوں کے ساتھ پڑھائیں۔
تشریح :
(۱) اذان کے رائج ہونے سے پہلے فرض نماز کے لیے انھی لفظوں [الصلاۃ جامعۃ] سے بلایا جاتا تھا۔ اب اگر کسی نفل نماز کے لیے بلانا ہو تو ان لفظوں سے اعلان کیا جا سکتا ہے۔ اذان صرف فرض نماز کے لیے ہے۔ (۲) ’’چار رکوع‘‘ نماز کسوف کے بارے میں زیادہ معتبر اور اوثق روایات ایک رکعت کے اندر دو رکوع کی ہیں۔ بعض محدثین نے تین، چار اور پانچ رکوع کی روایات کو بھی صحیح مان کر یہ موقف اختیار کیا ہے کہ کسوف کے وقت کے حساب سے رکوع کم و بیش کیے جا سکتے ہیں۔ دو سے پانچ تک۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ احادیث میں صرف ایک کسوف کا ذکر ہے اور وہ کشوف ۲۸ شوال ۱۰ھ کا ہے جس دن آپ کے فرزند ارجمند ابراہیم رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تھے کیونکہ ہر روایت میں موت و حیات کا ذکر ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ایک نماز کسوف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی طریقہ اختیار فرما سکتے تھے اور وہ معتبر روایات کے مطابق دو رکوع والا ہے۔ اس مسئلے کی تصفیل پیچھے ابتدائیے میں گزر چکی ہے۔ تفصیل کے لیے ابتدائیہ ملاحظہ فرمائیں۔ (۳) احناف عام نماز کی طرح نماز کشوف میں بھی ہر رکعت میں ایک ہی رکوع کے قائل ہیں مگر اس طرح صحیح اور صریح کثیر روایات، یعنی بخاری و مسلم کی اعلیٰ پائے کی روایات عمل سے رہ جائیں گی اور نماز کشوف کی خصوصی علامت ختم ہو جائے گی۔ اگر عیدین میں زائد تکبیرات، جنازے میں قیام کی زائد تکبیرات اور نماز وتر میں دعائے قنوت کا اضافہ احادیث کی بنا پر ہوسکتا ہے تو صلاۃ کسوف میں انتہائی معتبر اور صحیح روایات کی بنا پر ایک رکوع کا اضافہ کیوں قابل تسلیم نہیں؟ سوچیے! ہر صحیح حدیث واجب العمل ہے۔
(۱) اذان کے رائج ہونے سے پہلے فرض نماز کے لیے انھی لفظوں [الصلاۃ جامعۃ] سے بلایا جاتا تھا۔ اب اگر کسی نفل نماز کے لیے بلانا ہو تو ان لفظوں سے اعلان کیا جا سکتا ہے۔ اذان صرف فرض نماز کے لیے ہے۔ (۲) ’’چار رکوع‘‘ نماز کسوف کے بارے میں زیادہ معتبر اور اوثق روایات ایک رکعت کے اندر دو رکوع کی ہیں۔ بعض محدثین نے تین، چار اور پانچ رکوع کی روایات کو بھی صحیح مان کر یہ موقف اختیار کیا ہے کہ کسوف کے وقت کے حساب سے رکوع کم و بیش کیے جا سکتے ہیں۔ دو سے پانچ تک۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ احادیث میں صرف ایک کسوف کا ذکر ہے اور وہ کشوف ۲۸ شوال ۱۰ھ کا ہے جس دن آپ کے فرزند ارجمند ابراہیم رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تھے کیونکہ ہر روایت میں موت و حیات کا ذکر ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ایک نماز کسوف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی طریقہ اختیار فرما سکتے تھے اور وہ معتبر روایات کے مطابق دو رکوع والا ہے۔ اس مسئلے کی تصفیل پیچھے ابتدائیے میں گزر چکی ہے۔ تفصیل کے لیے ابتدائیہ ملاحظہ فرمائیں۔ (۳) احناف عام نماز کی طرح نماز کشوف میں بھی ہر رکعت میں ایک ہی رکوع کے قائل ہیں مگر اس طرح صحیح اور صریح کثیر روایات، یعنی بخاری و مسلم کی اعلیٰ پائے کی روایات عمل سے رہ جائیں گی اور نماز کشوف کی خصوصی علامت ختم ہو جائے گی۔ اگر عیدین میں زائد تکبیرات، جنازے میں قیام کی زائد تکبیرات اور نماز وتر میں دعائے قنوت کا اضافہ احادیث کی بنا پر ہوسکتا ہے تو صلاۃ کسوف میں انتہائی معتبر اور صحیح روایات کی بنا پر ایک رکوع کا اضافہ کیوں قابل تسلیم نہیں؟ سوچیے! ہر صحیح حدیث واجب العمل ہے۔