سنن النسائي - حدیث 1460

كِتَابُ الْكُسُوفِ كُسُوفُ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ يُونُسَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ أَبِي بَكْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ تَعَالَى لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ وَلَكِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُخَوِّفُ بِهِمَا عِبَادَهُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1460

کتاب: گرھن کے متعلق احکام و مسائل سورج اور چاند گرہن حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی دو نشانیاں ہیں۔ انھیں کسی کی موت اور پیدائش کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا بلکہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے سے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔‘‘
تشریح : (۱) ’’دو نشانیاں‘‘ یعنی بذات خود سورج اور چاند اللہ کی نشانیاں ہیں۔ جن سے اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت کا پتہ چلتا ہے۔ یا انھیں گرہن لگنا اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں۔ جب یہ دونوں اللہ تعالیٰ کے قبضہ و قدرت اور تصرف میں ہیں تو کسی کی موت اور پیدائش ان میں کیا اثر کرسکتی ہے؟ (۲) اس دور کے لوگ اعتقاد رکھتے تھے کہ کوئی بڑا شخص فوت یا پیدا ہو تو سورج یا چاند کو گرہن لگت ہے۔ مذکورہ گرہن نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات پر لگا تھا۔ لوگوں نے اسے ان کی وفات سے متعلق کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تردید فرمائی۔ (صحیح البخاري، الکسوف، حدیث: ۱۰۴۳، و صحیح مسلم، الکسوف، حدیث: ۹۱۵) (۳) ماہرین فلکیات کے نزدیک چاند کی روشنی اپنی نہیں بلکہ سورج کی روشنی اس پر پڑنے سے یہ روشن نظر آتا ہے۔ جب سورج کی روشنی اس پر نہیں پڑتی تو یہ نظر نہیں آتا، لہٰذا جب زمین سورج اور چاند کے درمیان میں آ جائے تو زمین کی رکاوٹ کی وجہ سے چاند پر روشنی نہیں پڑتی۔ اسے چاند گرہن کہتے ہیں۔ اور یہ قمری مہینے کی تیرہ یا چودہ تاریخ کو ہوسکتا ہے، آگے پیچھے نہیں۔ اور جب زمین اور سورج کے درمیان چاند آ جائے تو سورج کے جتنے حصے کے سامنے چاند آ جائے گا، وہ زمین پر نظر نہیں آئے گا۔ اسے سورج گرہن کہتے ہیں اور یہ قمری مہینے کے آخری ایک دو دنوں میں ہوسکتا ہے، آگے پیچھے نہیں۔ سورج اور چاند کا گہنا زمین اور چاند کی رفتار کے حساب سے ہے، لہٰذا وقت سے پہلے ان کا ٹھیک ٹھیک حساب لگا کر بتایا جا سکتا ہے۔ (۴) ’’ڈراتا ہے‘‘ ویسے سورج کا غروب ہونا اور مہینے کے شروع اور آخر میں پورے چاند کا نظر نہ آنا بھی گرہن کے مثل ہی ہے مگر چونکہ یہ روز مرہ ہیں، اس لیے ان پر کوئی حیرت یا اچنبھا نہیں ہوتا مگر گرہن کبھی کبھار ہوتا ہے، اس لیے اس پر حیرت ہوتی ہے اور انسان خوف زدہ ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی نشانیوں سے نصیحت حاصل کرنے کے زیادہ قریب ہو جاتا ہے۔ اور ایسے موقع پر حکم بھی یہی ہے کہ توبہ و استغفار اور اللہ کی طرف رجوع کیا جائے۔ (۱) ’’دو نشانیاں‘‘ یعنی بذات خود سورج اور چاند اللہ کی نشانیاں ہیں۔ جن سے اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت کا پتہ چلتا ہے۔ یا انھیں گرہن لگنا اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں۔ جب یہ دونوں اللہ تعالیٰ کے قبضہ و قدرت اور تصرف میں ہیں تو کسی کی موت اور پیدائش ان میں کیا اثر کرسکتی ہے؟ (۲) اس دور کے لوگ اعتقاد رکھتے تھے کہ کوئی بڑا شخص فوت یا پیدا ہو تو سورج یا چاند کو گرہن لگت ہے۔ مذکورہ گرہن نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات پر لگا تھا۔ لوگوں نے اسے ان کی وفات سے متعلق کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تردید فرمائی۔ (صحیح البخاري، الکسوف، حدیث: ۱۰۴۳، و صحیح مسلم، الکسوف، حدیث: ۹۱۵) (۳) ماہرین فلکیات کے نزدیک چاند کی روشنی اپنی نہیں بلکہ سورج کی روشنی اس پر پڑنے سے یہ روشن نظر آتا ہے۔ جب سورج کی روشنی اس پر نہیں پڑتی تو یہ نظر نہیں آتا، لہٰذا جب زمین سورج اور چاند کے درمیان میں آ جائے تو زمین کی رکاوٹ کی وجہ سے چاند پر روشنی نہیں پڑتی۔ اسے چاند گرہن کہتے ہیں۔ اور یہ قمری مہینے کی تیرہ یا چودہ تاریخ کو ہوسکتا ہے، آگے پیچھے نہیں۔ اور جب زمین اور سورج کے درمیان چاند آ جائے تو سورج کے جتنے حصے کے سامنے چاند آ جائے گا، وہ زمین پر نظر نہیں آئے گا۔ اسے سورج گرہن کہتے ہیں اور یہ قمری مہینے کے آخری ایک دو دنوں میں ہوسکتا ہے، آگے پیچھے نہیں۔ سورج اور چاند کا گہنا زمین اور چاند کی رفتار کے حساب سے ہے، لہٰذا وقت سے پہلے ان کا ٹھیک ٹھیک حساب لگا کر بتایا جا سکتا ہے۔ (۴) ’’ڈراتا ہے‘‘ ویسے سورج کا غروب ہونا اور مہینے کے شروع اور آخر میں پورے چاند کا نظر نہ آنا بھی گرہن کے مثل ہی ہے مگر چونکہ یہ روز مرہ ہیں، اس لیے ان پر کوئی حیرت یا اچنبھا نہیں ہوتا مگر گرہن کبھی کبھار ہوتا ہے، اس لیے اس پر حیرت ہوتی ہے اور انسان خوف زدہ ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی نشانیوں سے نصیحت حاصل کرنے کے زیادہ قریب ہو جاتا ہے۔ اور ایسے موقع پر حکم بھی یہی ہے کہ توبہ و استغفار اور اللہ کی طرف رجوع کیا جائے۔