سنن النسائي - حدیث 1458

كِتَابُ تَقْصِيرِ الصَّلَاةِ فِي السَّفَرِ تَرْكُ التَّطَوُّعِ فِي السَّفَرِ حسن صحيح أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ يَحْيَى قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ قَالَ حَدَّثَنَا الْعَلَاءُ بْنُ زُهَيْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا وَبَرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ كَانَ ابْنُ عُمَرَ لَا يَزِيدُ فِي السَّفَرِ عَلَى رَكْعَتَيْنِ لَا يُصَلِّي قَبْلَهَا وَلَا بَعْدَهَا فَقِيلَ لَهُ مَا هَذَا قَالَ هَكَذَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1458

کتاب: سفر میں نماز قصر کرنے کے متعلق احکام و مسائل سفر میں نفل نہ پڑھنا حضرت وبرہ بن عبدالرحمان سے روایت ہے عبداللہ بن عمر سفر میں دو رکعت فرض سے ذیا دہ نہیں پڑتے تھے نہ فرض سے پہلے سنت پڑتے تھے نہ فرض کے بعد ایک شخص نے پوچھا یہ کیا ہے انہوں نے کہا میں نے رسول اللہﷺ کو ایسا کرتے دیکھا ہے۔
تشریح : فرض نمازوں کی تمام سنن رواتب کے سوا سفر میں نفل پڑھنا قطعاً منع نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم سے مطلق نوافل پڑھنا ثابت ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم سفر میں سواری پر نفل نماز (وتر وغیرہ) پڑھ لیا کرتے تھے۔ اس میں وہ استقبال قبلہ (قبلہ رخ ہونے) کا بھی سوائے وقتِ آغاز کے، کوئی اہتمام نہیں کرتے تھے، بلکہ سواری کا رخ اور منہ جس طرف بھی ہوتا اسی طرف نماز پڑھ لیتے۔ اس طرح صرف نوافل میں کرتے، فرض نماز سواری سے اتر کر اور قبلہ رخ ہوکر پڑھا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کراام رضی اللہ عنھم کا سفر میں یہ عام معمول تھا۔ صحیحین کی احادیث میں اس کی مکمل صراحت موجود ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، التقصیر، حدیث: ۱۱۰۰-۱۱۹۳، و صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین……، حدیث: ۷۰۲-۷۰۰) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی سنتوں کی بہت تاکید فرمائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی صبح کی سنتوں کا خاص اہتمام و التزام فرمایا کرتے تھے۔ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ عفیفہ طاہرہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس قدر صبح کی سنتوں کا التزام و اہتمام اور ان پر محافظت و مداومت فرماتے تھے، اس قدر کسی اور نفل نماز پر نہیں فرماتے تھے۔ (صحیح البخاري، التھجد، حدیث: ۱۱۲۹) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی سنتوں کی بابت فرمایا ہے: ’’فجر کی دو رکعت (سنتیں) دنیا و مافیہا، یعنی جو کچھ دنیا میں ہے، اس سب سے بہتر ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: ۷۲۵) نیز یہ سنتیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ازحد محبوب اور پیاری تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی سنتوں کا کس قدر التزام فرماتے تھے؟ اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی ہوتا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ خیبر سے واپس آتے ہوئے رات کے پچھلے پہر سو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سمیت صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم میں سے کوئی بھی طلوع آفتاب سے پہلے نہ اٹھ سکا تو آپ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم سے فرمایا: ’’اپنی سواریاں لے کر اس وادی سے نکل چلو، اس جگہ شیطان رہتا ہے۔‘‘ پھر آپ نے وضو کیا اس کے بعد صبح کی دو سنتیں پڑھیں اور پھر صبح کے فرض باجماعت ادا کیے۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث: ۶۸۰) البتہ جو نماز قصر کی جاتی ہے، یعنی ظہر، عصر اور عشاء، ان میں آپ سے سنتیں پڑھنے کا ذکر نہیں ملتا، لہٰذا قصر کی جائے تو سنتیں نہ پڑھی جائیں کیونکہ قصر تو تخفیف کے لیے ہے۔ سنتیں پڑھنے سے تخفیف ختم ہو جاتی ہے۔ مغرب و عشاء کو جمع کرتے وقت مغرب کی سنتیں نہیں پڑھی جائیں گی۔ سفر کے دوران میں تہجد وغیرہ بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ دلائل کے عموم سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔ فرض نمازوں کی تمام سنن رواتب کے سوا سفر میں نفل پڑھنا قطعاً منع نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم سے مطلق نوافل پڑھنا ثابت ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم سفر میں سواری پر نفل نماز (وتر وغیرہ) پڑھ لیا کرتے تھے۔ اس میں وہ استقبال قبلہ (قبلہ رخ ہونے) کا بھی سوائے وقتِ آغاز کے، کوئی اہتمام نہیں کرتے تھے، بلکہ سواری کا رخ اور منہ جس طرف بھی ہوتا اسی طرف نماز پڑھ لیتے۔ اس طرح صرف نوافل میں کرتے، فرض نماز سواری سے اتر کر اور قبلہ رخ ہوکر پڑھا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کراام رضی اللہ عنھم کا سفر میں یہ عام معمول تھا۔ صحیحین کی احادیث میں اس کی مکمل صراحت موجود ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، التقصیر، حدیث: ۱۱۰۰-۱۱۹۳، و صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین……، حدیث: ۷۰۲-۷۰۰) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی سنتوں کی بہت تاکید فرمائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی صبح کی سنتوں کا خاص اہتمام و التزام فرمایا کرتے تھے۔ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ عفیفہ طاہرہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس قدر صبح کی سنتوں کا التزام و اہتمام اور ان پر محافظت و مداومت فرماتے تھے، اس قدر کسی اور نفل نماز پر نہیں فرماتے تھے۔ (صحیح البخاري، التھجد، حدیث: ۱۱۲۹) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی سنتوں کی بابت فرمایا ہے: ’’فجر کی دو رکعت (سنتیں) دنیا و مافیہا، یعنی جو کچھ دنیا میں ہے، اس سب سے بہتر ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: ۷۲۵) نیز یہ سنتیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ازحد محبوب اور پیاری تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی سنتوں کا کس قدر التزام فرماتے تھے؟ اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی ہوتا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ خیبر سے واپس آتے ہوئے رات کے پچھلے پہر سو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سمیت صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم میں سے کوئی بھی طلوع آفتاب سے پہلے نہ اٹھ سکا تو آپ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم سے فرمایا: ’’اپنی سواریاں لے کر اس وادی سے نکل چلو، اس جگہ شیطان رہتا ہے۔‘‘ پھر آپ نے وضو کیا اس کے بعد صبح کی دو سنتیں پڑھیں اور پھر صبح کے فرض باجماعت ادا کیے۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث: ۶۸۰) البتہ جو نماز قصر کی جاتی ہے، یعنی ظہر، عصر اور عشاء، ان میں آپ سے سنتیں پڑھنے کا ذکر نہیں ملتا، لہٰذا قصر کی جائے تو سنتیں نہ پڑھی جائیں کیونکہ قصر تو تخفیف کے لیے ہے۔ سنتیں پڑھنے سے تخفیف ختم ہو جاتی ہے۔ مغرب و عشاء کو جمع کرتے وقت مغرب کی سنتیں نہیں پڑھی جائیں گی۔ سفر کے دوران میں تہجد وغیرہ بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ دلائل کے عموم سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔