كِتَابُ تَقْصِيرِ الصَّلَاةِ فِي السَّفَرِ بَاب الْمَقَامِ الَّذِي يُقْصَرُ بِمِثْلِهِ الصَّلَاةُ صحيح أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ قَالَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ قَالَ أَنْبَأَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْمَدِينَةِ إِلَى مَكَّةَ فَكَانَ يُصَلِّي بِنَا رَكْعَتَيْنِ حَتَّى رَجَعْنَا قُلْتُ هَلْ أَقَامَ بِمَكَّةَ قَالَ نَعَمْ أَقَمْنَا بِهَا عَشْرًا
کتاب: سفر میں نماز قصر کرنے کے متعلق احکام و مسائل
کتنی دیر تک ٹھہرےتو قصر کر سکتا ہے؟
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے منقول ہے، فرماتے ہیں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کو نکلے۔ آپ واپس مدینہ تشریف لانے تک ہمیں دو رکعت ہی پڑھاتے رہے۔ (شاگرد ابواسحق بیان کرتے ہیں کہ) میں نے کہا: کیا آپ مککہ میں ٹھہرے تھے؟ انھوں نے فرمایا: ہاں، ہم مکہ میں دس دن ٹھہرے تھے۔
تشریح :
یہ حجۃ الوداع کی بات ہے۔ لیکن آپ دس دن صرف مکہ میں نہیں بلکہ منی، مزدلفہ، عرفات میں مجموعی طور پر دس دن ٹھہرے تھے۔ مکہ میں آپ کی مسلسل رہائش پورے چار دن رہی ہے۔ چار ذوالحجہ کی صبح کو مکہ میں داخل ہوئے اور آٹھ کی صبح کو منی روانہ ہوگئے۔ اسی بنا پر امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا یہ خیال ہے کہ اکیس نمازیں ایک جگہ ٹھہر کر پڑھنی ہوں تو قصر کرے، زیادہ ٹھہرنا ہو تو شروع سے مکمل پڑھے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ آنے جانے کا دن نکال کر تین دن ٹھہرنا ہو تو قصر کرے اور اگر اس سے زائد ٹھہرنا ہو تو شروع دن سے پوری پڑھے۔ یہ دونوں اقوال ملتے جلتے ہیں اور ان کا نتیجہ ایک ہی ہے۔ اوری ہی صحیح اور راجح موقف ہے۔ واللہ أعلم۔ احناف پندرہ دن کے قیام میں قصر کے قائل ہیں اور زائد کی صورت میں پوری نماز پڑھنے کے قائل ہیں۔ جس کی تفصیل آگے آ رہی ہے۔
یہ حجۃ الوداع کی بات ہے۔ لیکن آپ دس دن صرف مکہ میں نہیں بلکہ منی، مزدلفہ، عرفات میں مجموعی طور پر دس دن ٹھہرے تھے۔ مکہ میں آپ کی مسلسل رہائش پورے چار دن رہی ہے۔ چار ذوالحجہ کی صبح کو مکہ میں داخل ہوئے اور آٹھ کی صبح کو منی روانہ ہوگئے۔ اسی بنا پر امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا یہ خیال ہے کہ اکیس نمازیں ایک جگہ ٹھہر کر پڑھنی ہوں تو قصر کرے، زیادہ ٹھہرنا ہو تو شروع سے مکمل پڑھے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ آنے جانے کا دن نکال کر تین دن ٹھہرنا ہو تو قصر کرے اور اگر اس سے زائد ٹھہرنا ہو تو شروع دن سے پوری پڑھے۔ یہ دونوں اقوال ملتے جلتے ہیں اور ان کا نتیجہ ایک ہی ہے۔ اوری ہی صحیح اور راجح موقف ہے۔ واللہ أعلم۔ احناف پندرہ دن کے قیام میں قصر کے قائل ہیں اور زائد کی صورت میں پوری نماز پڑھنے کے قائل ہیں۔ جس کی تفصیل آگے آ رہی ہے۔