سنن النسائي - حدیث 1452

كِتَابُ تَقْصِيرِ الصَّلَاةِ فِي السَّفَرِ بَاب الصَّلَاةِ بِمِنًى صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ عَنْ يُونُسَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِنًى رَكْعَتَيْنِ وَصَلَّاهَا أَبُو بَكْرٍ رَكْعَتَيْنِ وَصَلَّاهَا عُمَرُ رَكْعَتَيْنِ وَصَلَّاهَا عُثْمَانُ صَدْرًا مِنْ خِلَافَتِهِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1452

کتاب: سفر میں نماز قصر کرنے کے متعلق احکام و مسائل منیٰ میں نماز( کیسے پڑھی جائے؟) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منیٰ میں دو رکعتیں پڑھیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی یہاں دو رکعتیں ہی پڑھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی دو ہی پڑھیں۔ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی خلافت کی ابتدا میں دو رکعتیں ہی پڑھیں۔
تشریح : (۱) بعد میں کسی وجہ سے اجتہادی طور پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حج کے موقع پر منیٰ میں چار رکعتیں شروع کر دی تھیں۔ اور محدثین نے اس کی متعدد وجوہ بیان فرمائی ہیں جس کی تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔ اور اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بابت بھی مروی ہے کہ وہ بھی دوران سفر میں پوری نماز پڑھ لیتی تھیں۔ ان احادیث کے پیش نظر علمائے محققین نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی اس رخصت سے فائدہ اٹھانا چاہیے، نیز فرمان نبوی بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو پسند کرتا ہے کہ اس کی رخصت کو قبول کیا جائے۔ بنابریں ہمارے نزدیک افضل یہ ہے کہ دوران سفر نماز قصر پڑھی جائے، لیکن اگر کوئی رخصت سے فائدہ نہ اٹھائے اور پوری نماز پڑھے تو اس کی بھی گنجائش ہے اسے بدعت وغیرہ نہیں کہنا چاہیے۔ واللہ أعلم۔ (۲) مندرجہ بالا تمام روایات میں دو رکعت سے مراد صرف وہ نماز ہے جو اصل رباعی، یعنی چار رکعت والی ہے، ورنہ مغرب ہر حال میں تین رکعت ہے اور فجر ہر حال میں دو رکعت۔ اور یہ متفقہ بات ہے۔ (۱) بعد میں کسی وجہ سے اجتہادی طور پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حج کے موقع پر منیٰ میں چار رکعتیں شروع کر دی تھیں۔ اور محدثین نے اس کی متعدد وجوہ بیان فرمائی ہیں جس کی تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔ اور اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بابت بھی مروی ہے کہ وہ بھی دوران سفر میں پوری نماز پڑھ لیتی تھیں۔ ان احادیث کے پیش نظر علمائے محققین نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی اس رخصت سے فائدہ اٹھانا چاہیے، نیز فرمان نبوی بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو پسند کرتا ہے کہ اس کی رخصت کو قبول کیا جائے۔ بنابریں ہمارے نزدیک افضل یہ ہے کہ دوران سفر نماز قصر پڑھی جائے، لیکن اگر کوئی رخصت سے فائدہ نہ اٹھائے اور پوری نماز پڑھے تو اس کی بھی گنجائش ہے اسے بدعت وغیرہ نہیں کہنا چاہیے۔ واللہ أعلم۔ (۲) مندرجہ بالا تمام روایات میں دو رکعت سے مراد صرف وہ نماز ہے جو اصل رباعی، یعنی چار رکعت والی ہے، ورنہ مغرب ہر حال میں تین رکعت ہے اور فجر ہر حال میں دو رکعت۔ اور یہ متفقہ بات ہے۔