كِتَابُ تَقْصِيرِ الصَّلَاةِ فِي السَّفَرِ بَاب الصَّلَاةِ بِمِنًى صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ بُكَيْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّهُ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِنًى وَمَعَ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ رَكْعَتَيْنِ وَمَعَ عُثْمَانَ رَكْعَتَيْنِ صَدْرًا مِنْ إِمَارَتِهِ
کتاب: سفر میں نماز قصر کرنے کے متعلق احکام و مسائل
منیٰ میں نماز( کیسے پڑھی جائے؟)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے منیٰ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ دو رکعتیں پڑھیں اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی ان کی امارت کے ابتدائی زمانے میں دو رکعتیں ہی پڑھیں۔
تشریح :
’’ابتدائی زمانے میں‘‘ یعنی بعد میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے منیٰ میں پوری نماز شروع کر دی تھی، کیوں؟ اس کی مختلف وجوہات بیان کی جاتی ہیں: ایک یہ کہ پوری پڑھنا بھی جائز ہے۔ لوگوں کو غلط فہمی ہونے لگی تھی کہ نماز ہر حال میں دو رکعت ہی ہے کیونکہ خلیفہ جب بھی آتا ہے، دو رکعت پڑھاتا ہے، ہمارے ائمہ خواہ مخواہ چار پڑھاتے ہیں۔ یہ غلط فہمی دور کرنے کے لیے نماز مکمل پڑھائی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ قصر صرف سفر کی حالت میں ہوتی ہے۔ جب آدمی کسی جگہ ٹھہر جائے اور اسے سفر کی مشکلات درپیش نہ ہوں تو قصر نہ کرے، خواہ تھوڑے دن ہی ٹھہرے۔ چونکہ منیٰ میں تتین دن (یا چار دن) آرام و سکون سے رہائش ہوتی ہے، لہٰذا پوری نماز پڑھنی چاہیے۔ آپ نے مکہ مکرمہ میں شادی کرلی تھی۔ ان کے علاوہ اور بھی وجوہات بیان کی گئی ہیں لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان تمام کارد کرتے ہوئے لکھا ہے یہ وجوہات درست نہیں۔ بنابریں سنت یہی ہے کہ سفر میں دو رکعت نماز ادا کی جائے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے۔ و خیر الھدي ھدي محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔ نیز حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہا کا بھی اسی پر عمل تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا پوری نماز پڑھنا ان کا ذاتی اجتہاد تھا، وہ شاید اس لیے پڑھتے ہوں کہ سفر میں پوری نماز پڑھنا بھی جائز ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبی شرح سنن النسائي: ۳۵۸-۳۵۴/۱۶)
’’ابتدائی زمانے میں‘‘ یعنی بعد میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے منیٰ میں پوری نماز شروع کر دی تھی، کیوں؟ اس کی مختلف وجوہات بیان کی جاتی ہیں: ایک یہ کہ پوری پڑھنا بھی جائز ہے۔ لوگوں کو غلط فہمی ہونے لگی تھی کہ نماز ہر حال میں دو رکعت ہی ہے کیونکہ خلیفہ جب بھی آتا ہے، دو رکعت پڑھاتا ہے، ہمارے ائمہ خواہ مخواہ چار پڑھاتے ہیں۔ یہ غلط فہمی دور کرنے کے لیے نماز مکمل پڑھائی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ قصر صرف سفر کی حالت میں ہوتی ہے۔ جب آدمی کسی جگہ ٹھہر جائے اور اسے سفر کی مشکلات درپیش نہ ہوں تو قصر نہ کرے، خواہ تھوڑے دن ہی ٹھہرے۔ چونکہ منیٰ میں تتین دن (یا چار دن) آرام و سکون سے رہائش ہوتی ہے، لہٰذا پوری نماز پڑھنی چاہیے۔ آپ نے مکہ مکرمہ میں شادی کرلی تھی۔ ان کے علاوہ اور بھی وجوہات بیان کی گئی ہیں لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان تمام کارد کرتے ہوئے لکھا ہے یہ وجوہات درست نہیں۔ بنابریں سنت یہی ہے کہ سفر میں دو رکعت نماز ادا کی جائے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے۔ و خیر الھدي ھدي محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔ نیز حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہا کا بھی اسی پر عمل تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا پوری نماز پڑھنا ان کا ذاتی اجتہاد تھا، وہ شاید اس لیے پڑھتے ہوں کہ سفر میں پوری نماز پڑھنا بھی جائز ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبی شرح سنن النسائي: ۳۵۸-۳۵۴/۱۶)