سنن النسائي - حدیث 1442

كِتَابُ تَقْصِيرِ الصَّلَاةِ فِي السَّفَرِ باب: صحيح أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ وَهْبٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو عَبْدِ الرَّحِيمِ قَالَ حَدَّثَنِي زَيْدٌ عَنْ أَيُّوبَ وَهُوَ ابْنُ عَائِذٍ عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الْأَخْنَسِ عَنْ مُجَاهِدٍ أَبِي الْحَجَّاجِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ فُرِضَتْ صَلَاةُ الْحَضَرِ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعًا وَصَلَاةُ السَّفَرِ رَكْعَتَيْنِ وَصَلَاةُ الْخَوْفِ رَكْعَةً

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1442

کتاب: سفر میں نماز قصر کرنے کے متعلق احکام و مسائل باب: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ گھر کی نماز تمھارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی چچاار رکعت، سفر کی نماز دو رکعت اور خوف کی نماز ایک رکعت فرض کی گئی ہے۔
تشریح : (۱) بظاہر روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ سفر کی نماز ہے ہی دو رکعت، چار نہیں پڑھی جا سکتیں مگر یہ مفہوم قرآن کی آیت کریمہ اور دیگر احادیث کے صراحتاً خلاف ہے۔ اگر ایسے ہوتا تو اسے قصر نہ کہا جاتا، لہٰذا یہ مفہوم غیرمعتبر ہے۔ (۲) ’’خوف کی نماز ایک رکعت۔‘‘ جمہور اہل علم نے اس بات کو قبول نہیں کیا، وہ اس حدیث کی تاویل کرتے ہیں کہ ایک رکعت سے مراد امام کے ساتھ ایک رکعت ہے نہ کہ فی الواقع ایک رکعت کہ دوسری رکعت پڑھی نہ جائے۔ بلکہ وہ دوسری رکعت اپنے طور پر پڑھے۔ لیکن جمہور اہل علم کا یہ موقف دلائل کی روشنی میں محل نظر ہے۔ ایک رکعت نماز خوف بھی متعدد صحیح احادیث سے ثابت ہے، لہٰذا موقع و محل کی مناسبت سے ایک رکعت بھی بلاتامل پڑھی جاسکتی ہے۔ نماز خوف کی تقریباً چھ سات صورتیں احادیث میں وارد ہیں۔ تو خوف کی صورت حال کو مدنظر رکھ کر کسی بھی صورت پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ ان میں کوئی تعارض نہیں۔ تمام واقعات اور طریقوں کو ایک ثابت کرنے کی کوشش کرنا غیر ضروری تکلیف ہے۔ موقع و محل اور ضرورت کے مطابق کسی بھی طریقے پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبی، شرح سنن النسائي، کتاب الخوف) (۱) بظاہر روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ سفر کی نماز ہے ہی دو رکعت، چار نہیں پڑھی جا سکتیں مگر یہ مفہوم قرآن کی آیت کریمہ اور دیگر احادیث کے صراحتاً خلاف ہے۔ اگر ایسے ہوتا تو اسے قصر نہ کہا جاتا، لہٰذا یہ مفہوم غیرمعتبر ہے۔ (۲) ’’خوف کی نماز ایک رکعت۔‘‘ جمہور اہل علم نے اس بات کو قبول نہیں کیا، وہ اس حدیث کی تاویل کرتے ہیں کہ ایک رکعت سے مراد امام کے ساتھ ایک رکعت ہے نہ کہ فی الواقع ایک رکعت کہ دوسری رکعت پڑھی نہ جائے۔ بلکہ وہ دوسری رکعت اپنے طور پر پڑھے۔ لیکن جمہور اہل علم کا یہ موقف دلائل کی روشنی میں محل نظر ہے۔ ایک رکعت نماز خوف بھی متعدد صحیح احادیث سے ثابت ہے، لہٰذا موقع و محل کی مناسبت سے ایک رکعت بھی بلاتامل پڑھی جاسکتی ہے۔ نماز خوف کی تقریباً چھ سات صورتیں احادیث میں وارد ہیں۔ تو خوف کی صورت حال کو مدنظر رکھ کر کسی بھی صورت پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ ان میں کوئی تعارض نہیں۔ تمام واقعات اور طریقوں کو ایک ثابت کرنے کی کوشش کرنا غیر ضروری تکلیف ہے۔ موقع و محل اور ضرورت کے مطابق کسی بھی طریقے پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبی، شرح سنن النسائي، کتاب الخوف)