سنن النسائي - حدیث 1439

كِتَابُ تَقْصِيرِ الصَّلَاةِ فِي السَّفَرِ باب: صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ أَنَسٍ قَالَ خَرَجْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْمَدِينَةِ إِلَى مَكَّةَ فَلَمْ يَزَلْ يَقْصُرُ حَتَّى رَجَعَ فَأَقَامَ بِهَا عَشْرًا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1439

کتاب: سفر میں نماز قصر کرنے کے متعلق احکام و مسائل باب: حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ گیا۔ آپ واپس مدینہ منورہ آنے تک نماز قصر کرتے رہے۔ آپ مکے میں دس دن ٹھہرے تھے۔
تشریح : (۱) یہ حجۃ الوداع کی بات ہے اور یہ دس دن صرف مکے میں نہیں ٹھہرے تھے بلکہ مقامات حج منیٰ، مزدلفہ اور عرفات بھی اسی میں شامل ہیں۔ چار ذوالحجہ کو آپ مکہ مکرمہ پہنچے تھے۔ حج و عمرہ کے تمام ارکان ادا کرنے کے بعد چودہ ذوالحجہ کو آپ واپس مدینہ منورہ روانہ ہوگئے۔ کسی بھی جگہ آپ کا قیام چار دن سے زائد نہ تھا۔ اور چوتھا دن بھی دخول یا خروج کو شامل کرکے ہے، اسی لیے راجح بات یہ ہے کہ اگر قیام کی نیت تین (یا چار) دن کی ہے تو پھر وہ مسافر قصر نماز پڑھے، ورنہ شروع دن ہی سے پوری نماز پڑھنے، وہ اپنے آپ کو مسافر نہ سمجھے۔ (۲) کم از کم وہ کتنی مسافت ہے جس کا ارادہ ہو تو انسان اس دوران میں نماز قصر کرسکتا ہے؟ اس بارے میں علمائے کرام کا اختلاف ہے۔ مختلف آراء ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ اگر کسی کا اڑتالیس میل سفر کا قصد ہو تو وہ اپنے شہر یا بستی کی حدود سے نکلنے کے بعد قصر کرسکتا ہے۔ بطور دلیل ابن عباس رضی اللہ عنہا کی حدیث پیش کی جاتی ہے۔ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: ’’اے اہل مکہ! چار برید (اڑتالیس میل) سے کم سفر میں نماز قصر نہ کرو، جیسے مکہ سے عسفان تک۔‘‘(سنن الدارقطني مع التعلیق المغني: ۳۸۷/۲، و السنن الکبریٰ للبیھقی: ۱۳۷/۳، ۱۳۸) لیکن یہ روایت ضعیف اور ناقابل حجت ہے۔ اس کی سند میں ایک تو اسماعیل بن عیاش ہیں، غیر شامیوں سے ان کی روایت ضعیف ہوتی ہے۔ دوسرے عبدالوہاب بن مجاہد ہیں۔ یہ بھی ضعیف ہیں۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: [إرواء الغلیل، حدیث: ۵۶۵] لہٰذا قصر کے لیے کم از کم اڑتالیس میل کی شرط درست نہیں، نیز کسی اور مستند دلیل سے بھی اس کی تائید نہیں ہوتی۔ اس کے متعلق صحیح اور صریح ترین جو حدیث منقول ہے وہ حضرت انس بن مالک کی حدیث ہے۔ یحییٰ بن یزید ہنائی کہتے ہیں: میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے نماز قصر کرنے کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تین میل یا تین فرسخ کی مسافت پر جاتے تو دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔ یہ شک شعبہ کو ہوا ہے۔ تین میل کی مسافت کو فرسخ (فارسی میں فرسنگ) کہتے ہیں۔ اس طرح قصر کے لیے کم از کم مسافت نو میل ہوئی۔ تین میل کی بات چونکہ مشکوک ہے، اس لیے حجت نہیں اور تین فرسخ کی مسافت احتیاط و یقین پر مبنی ہے، اس لیے سفر کی مسافت (اپنے شہر کی حد چھوڑ کر) کم از کم نو میل، یعنی تقریباً ۲۲ کلومیٹر ہوگی کیونکہ عربی میل کی مسافت انگریزی میل کی بہ نسبت زیادہ ہے۔ اور یہی موقف راحج ہے۔ واللہ أعلم۔ (۱) یہ حجۃ الوداع کی بات ہے اور یہ دس دن صرف مکے میں نہیں ٹھہرے تھے بلکہ مقامات حج منیٰ، مزدلفہ اور عرفات بھی اسی میں شامل ہیں۔ چار ذوالحجہ کو آپ مکہ مکرمہ پہنچے تھے۔ حج و عمرہ کے تمام ارکان ادا کرنے کے بعد چودہ ذوالحجہ کو آپ واپس مدینہ منورہ روانہ ہوگئے۔ کسی بھی جگہ آپ کا قیام چار دن سے زائد نہ تھا۔ اور چوتھا دن بھی دخول یا خروج کو شامل کرکے ہے، اسی لیے راجح بات یہ ہے کہ اگر قیام کی نیت تین (یا چار) دن کی ہے تو پھر وہ مسافر قصر نماز پڑھے، ورنہ شروع دن ہی سے پوری نماز پڑھنے، وہ اپنے آپ کو مسافر نہ سمجھے۔ (۲) کم از کم وہ کتنی مسافت ہے جس کا ارادہ ہو تو انسان اس دوران میں نماز قصر کرسکتا ہے؟ اس بارے میں علمائے کرام کا اختلاف ہے۔ مختلف آراء ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ اگر کسی کا اڑتالیس میل سفر کا قصد ہو تو وہ اپنے شہر یا بستی کی حدود سے نکلنے کے بعد قصر کرسکتا ہے۔ بطور دلیل ابن عباس رضی اللہ عنہا کی حدیث پیش کی جاتی ہے۔ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: ’’اے اہل مکہ! چار برید (اڑتالیس میل) سے کم سفر میں نماز قصر نہ کرو، جیسے مکہ سے عسفان تک۔‘‘(سنن الدارقطني مع التعلیق المغني: ۳۸۷/۲، و السنن الکبریٰ للبیھقی: ۱۳۷/۳، ۱۳۸) لیکن یہ روایت ضعیف اور ناقابل حجت ہے۔ اس کی سند میں ایک تو اسماعیل بن عیاش ہیں، غیر شامیوں سے ان کی روایت ضعیف ہوتی ہے۔ دوسرے عبدالوہاب بن مجاہد ہیں۔ یہ بھی ضعیف ہیں۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: [إرواء الغلیل، حدیث: ۵۶۵] لہٰذا قصر کے لیے کم از کم اڑتالیس میل کی شرط درست نہیں، نیز کسی اور مستند دلیل سے بھی اس کی تائید نہیں ہوتی۔ اس کے متعلق صحیح اور صریح ترین جو حدیث منقول ہے وہ حضرت انس بن مالک کی حدیث ہے۔ یحییٰ بن یزید ہنائی کہتے ہیں: میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے نماز قصر کرنے کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تین میل یا تین فرسخ کی مسافت پر جاتے تو دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔ یہ شک شعبہ کو ہوا ہے۔ تین میل کی مسافت کو فرسخ (فارسی میں فرسنگ) کہتے ہیں۔ اس طرح قصر کے لیے کم از کم مسافت نو میل ہوئی۔ تین میل کی بات چونکہ مشکوک ہے، اس لیے حجت نہیں اور تین فرسخ کی مسافت احتیاط و یقین پر مبنی ہے، اس لیے سفر کی مسافت (اپنے شہر کی حد چھوڑ کر) کم از کم نو میل، یعنی تقریباً ۲۲ کلومیٹر ہوگی کیونکہ عربی میل کی مسافت انگریزی میل کی بہ نسبت زیادہ ہے۔ اور یہی موقف راحج ہے۔ واللہ أعلم۔