سنن النسائي - حدیث 1435

كِتَابُ تَقْصِيرِ الصَّلَاةِ فِي السَّفَرِ باب: صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أُمَيَّةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خَالِدٍ أَنَّهُ قَالَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ إِنَّا نَجِدُ صَلَاةَ الْحَضَرِ وَصَلَاةَ الْخَوْفِ فِي الْقُرْآنِ وَلَا نَجِدُ صَلَاةَ السَّفَرِ فِي الْقُرْآنِ فَقَالَ لَهُ ابْنُ عُمَرَ يَا ابْنَ أَخِي إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ بَعَثَ إِلَيْنَا مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا نَعْلَمُ شَيْئًا وَإِنَّمَا نَفْعَلُ كَمَا رَأَيْنَا مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1435

کتاب: سفر میں نماز قصر کرنے کے متعلق احکام و مسائل باب: حضرت امیہ بن عبداللہ بن خالد نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا: ہم قرآن مجید میں گھر کی نماز اور خوف کی نماز پاتے ہیں لیکن سفر کی نماز قرآن مجید میں نہیں پاتے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ان سے کہا: اے میرے بھتیجے! تحقیق اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہماری طرف (نبی بنا کر) بھیجا جب کہ ہم کچھ نہیں جانتے تھے۔ ہم تو صرف اس طرح کریں گے جس طرح ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے دیکھا ہے۔
تشریح : قرآن مجید کو بھی ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی تصدیق سے مانتے ہیں، لہٰذا اصل حیثیت تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔ آپ جو فرمائیں گے، وہ ہمارے لیے حجت ہے، قرآن مجید میں ہو یا نہ ہو۔ قرآن مجید میں تو نماز کا طریقہ بھی ذکر نہیں اور نہ ان کی تعداد وغیرہ ہی کا ذکر ہے۔ جب ان باتوں کو ہم قرآن مجید میں نہ ہونے کے باوجود مانتے ہیں تو قصر سفر کو بھی ماننا چاہیے کیونکہ یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صراحتاً ثابت ہے۔ قولاً بھی فعلاً بھی۔ مزید تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔ قرآن مجید کو بھی ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی تصدیق سے مانتے ہیں، لہٰذا اصل حیثیت تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔ آپ جو فرمائیں گے، وہ ہمارے لیے حجت ہے، قرآن مجید میں ہو یا نہ ہو۔ قرآن مجید میں تو نماز کا طریقہ بھی ذکر نہیں اور نہ ان کی تعداد وغیرہ ہی کا ذکر ہے۔ جب ان باتوں کو ہم قرآن مجید میں نہ ہونے کے باوجود مانتے ہیں تو قصر سفر کو بھی ماننا چاہیے کیونکہ یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صراحتاً ثابت ہے۔ قولاً بھی فعلاً بھی۔ مزید تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔