كِتَابُ تَقْصِيرِ الصَّلَاةِ فِي السَّفَرِ باب: صحيح أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ قَالَ أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ ابْنِ أَبِي عَمَّارٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَابَيْهِ عَنْ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ قَالَ قُلْتُ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنْ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَنْ يَفْتِنَكُمْ الَّذِينَ كَفَرُوا فَقَدْ أَمِنَ النَّاسُ فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَجِبْتُ مِمَّا عَجِبْتَ مِنْهُ فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ صَدَقَةٌ تَصَدَّقَ اللَّهُ بِهَا عَلَيْكُمْ فَاقْبَلُوا صَدَقَتَهُ
کتاب: سفر میں نماز قصر کرنے کے متعلق احکام و مسائل
باب:
حضرت یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ (قرآن کی آیت) (فلیس علیکم جناح ان تعصروا من الصلوٰۃ ان خفتم ان یفتنکم الذین کفروا) ’’تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم نماز قصر کرلو بشرطیکہ تمھیں ڈر ہو کہ کافر تمھیں نقصان پہنچائیں گے۔‘‘ (سے معلوم ہوتا ہے کہ قصر نماز خوف ہی کی حالت کے ساتھ خاص ہے) اب تو لوگ امن کی حالت میں ہیں۔ (لہٰذا نماز قصر نہیں کرنی چاہیے۔) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے بھی اس بات پر تعجب ہوا تھا جس پر تجھے تعجب ہوا ہے تو میں نے اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا۔ آپ نے فرمایا: ’’یہ صدقہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے تم پر کیا ہے، تو تم اللہ تعالیٰ کا صدقہ قبول کرو۔‘‘
تشریح :
(۱)مندرجہ بالا آیت میں بظاہر سفر اور خوف دونوں کو قصر کے لیے شرط قرار دیا گیا ہے، لہٰذا یہ سوال بجا ہے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب سے یہ بات واضحہوتی ہے کہ جب قصر کا حکم نازل ہوا، اس وقت تو واقعتاً سفر بھی تھا اور خوف بھی مگر بعد میں خوف کی شرط ساقط کر دی گئی۔ لفظ ’’صدقہ‘‘ بھی اس سقوط پر دلالت کرتا ہے۔ مگر اس سقوط کا ذکر قرآن میں نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی معلوم ہوا۔ اس بات کو یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ قصر کے لیے صرف سفر ہی شرط تھا، خوف کا ذکر درپیش صورتِ حال کے طور پر تھا کیونکہ اس وقت خوف کی حالت بھی تھی۔ بعد میں وضاحت کر دی گئی کہ خوف قصر کے لیے شرط نہیں، لہٰذا ’’صدقہ‘‘ قصر کے حکم کو کہا جائے گا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ قرآن مجید میں ذکر قصر خوف کا ہے نہ کہ قصر سفر کا۔ اور قصر خوف سے مراد طریقۂ جماعت میں سہولت کے مطابق تبدیلی ہے جیسا کہ آیت کے مابعد الفاظ اور احادیث میں اس کی تفصیل وارد ہے۔ گویا قصر ہیئت مراد ہے۔ قصر سفر کا ذکر صرف احادیث میںہے۔ بعض حضرات کے نزدیک (ان خفتم) یعنی خوف کی قید قصر کی بجائے مابعد کلام سے متعلق ہے، یعنی اگر تمھیں خوف ہو تو نماز کی ادائیگی کے وقت دو گروپ بنالو۔ اور (ان خفتم) سے پہلے الگ جملہ ہے، یعنی جب تم سفر میں ہو تو قصر کرنے میں کوئی گناہ نہیں۔ بہرصورت صحابہ رضی اللہ عنھم سے لے کر اب تک اتفاق ہے کہ قصر کے لیے خوف کی شرط نہیں۔ (۲) ’’قصر‘‘ سے مراد یہ ہے کہ رباعی نماز (یعنی ظہر، عصر اور عشاء) کی دو رکعت پڑھ لیا جائے۔ مغرب اور فجر اپنی اصلی حالت پر رہیں گی۔ (۳) ’’قبول کرو‘‘ اس لفظ سے بعض حضرات نے استدلال کیا ہے کہ قصر واجب ہے، حالانکہ قرآن مجید کے صریح الفاظ وجوب کی نفی کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی قصر کے لیے ’’صدقہ‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس سے وجوب ثابت نہیں ہوتا۔ صحیح بات یہی ہے کہ قصر رخصت ہے اور اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کی رخصت کو قبول کیا جائے۔ اس بنا پر ہمارے نزدیک یہی فاضل ہے کہ دوران سفر نماز قصر پڑھی جائے، لیکن اگر کوئی رخصت سے فائدہ نہ اٹھاتے ہوئے نماز پوری ادا کرتا ہے تو اس کا جواز ہے جیسا کہ حضرت عائشہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما سے صراحتاً مکمل نماز (یعنی چار رکعت) پڑھنے کی صحیح روایات مذکور ہیں۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، التقصیر، حدیث: ۱۰۹۰، و صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین و قصرھا، حدیث: ۶۸۵، ۶۹۴) جبکہ احناف قصر کو واجب اور چار رکعت پڑھنے کو ممنوج سمجھتے ہیں، مگر اس کی کوئی دلیل پیش نہیں کی جاسکتی۔ (۴) مقام و مرتبے میں کم شخص اپنے سے افضل شخصیت سے قابل اشکال چیز کی وضاحت طلب کرسکتا ہے۔
(۱)مندرجہ بالا آیت میں بظاہر سفر اور خوف دونوں کو قصر کے لیے شرط قرار دیا گیا ہے، لہٰذا یہ سوال بجا ہے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب سے یہ بات واضحہوتی ہے کہ جب قصر کا حکم نازل ہوا، اس وقت تو واقعتاً سفر بھی تھا اور خوف بھی مگر بعد میں خوف کی شرط ساقط کر دی گئی۔ لفظ ’’صدقہ‘‘ بھی اس سقوط پر دلالت کرتا ہے۔ مگر اس سقوط کا ذکر قرآن میں نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی معلوم ہوا۔ اس بات کو یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ قصر کے لیے صرف سفر ہی شرط تھا، خوف کا ذکر درپیش صورتِ حال کے طور پر تھا کیونکہ اس وقت خوف کی حالت بھی تھی۔ بعد میں وضاحت کر دی گئی کہ خوف قصر کے لیے شرط نہیں، لہٰذا ’’صدقہ‘‘ قصر کے حکم کو کہا جائے گا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ قرآن مجید میں ذکر قصر خوف کا ہے نہ کہ قصر سفر کا۔ اور قصر خوف سے مراد طریقۂ جماعت میں سہولت کے مطابق تبدیلی ہے جیسا کہ آیت کے مابعد الفاظ اور احادیث میں اس کی تفصیل وارد ہے۔ گویا قصر ہیئت مراد ہے۔ قصر سفر کا ذکر صرف احادیث میںہے۔ بعض حضرات کے نزدیک (ان خفتم) یعنی خوف کی قید قصر کی بجائے مابعد کلام سے متعلق ہے، یعنی اگر تمھیں خوف ہو تو نماز کی ادائیگی کے وقت دو گروپ بنالو۔ اور (ان خفتم) سے پہلے الگ جملہ ہے، یعنی جب تم سفر میں ہو تو قصر کرنے میں کوئی گناہ نہیں۔ بہرصورت صحابہ رضی اللہ عنھم سے لے کر اب تک اتفاق ہے کہ قصر کے لیے خوف کی شرط نہیں۔ (۲) ’’قصر‘‘ سے مراد یہ ہے کہ رباعی نماز (یعنی ظہر، عصر اور عشاء) کی دو رکعت پڑھ لیا جائے۔ مغرب اور فجر اپنی اصلی حالت پر رہیں گی۔ (۳) ’’قبول کرو‘‘ اس لفظ سے بعض حضرات نے استدلال کیا ہے کہ قصر واجب ہے، حالانکہ قرآن مجید کے صریح الفاظ وجوب کی نفی کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی قصر کے لیے ’’صدقہ‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس سے وجوب ثابت نہیں ہوتا۔ صحیح بات یہی ہے کہ قصر رخصت ہے اور اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کی رخصت کو قبول کیا جائے۔ اس بنا پر ہمارے نزدیک یہی فاضل ہے کہ دوران سفر نماز قصر پڑھی جائے، لیکن اگر کوئی رخصت سے فائدہ نہ اٹھاتے ہوئے نماز پوری ادا کرتا ہے تو اس کا جواز ہے جیسا کہ حضرت عائشہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما سے صراحتاً مکمل نماز (یعنی چار رکعت) پڑھنے کی صحیح روایات مذکور ہیں۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، التقصیر، حدیث: ۱۰۹۰، و صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین و قصرھا، حدیث: ۶۸۵، ۶۹۴) جبکہ احناف قصر کو واجب اور چار رکعت پڑھنے کو ممنوج سمجھتے ہیں، مگر اس کی کوئی دلیل پیش نہیں کی جاسکتی۔ (۴) مقام و مرتبے میں کم شخص اپنے سے افضل شخصیت سے قابل اشکال چیز کی وضاحت طلب کرسکتا ہے۔