سنن النسائي - حدیث 1431

كِتَابُ الْجُمْعَةِ ذِكْرُ السَّاعَةِ الَّتِي يُسْتَجَابُ فِيهَا الدُّعَاءُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا بَكْرٌ يَعْنِي ابْنَ مُضَرَ عَنْ ابْنِ الْهَادِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ أَتَيْتُ الطُّورَ فَوَجَدْتُ ثَمَّ كَعْبًا فَمَكَثْتُ أَنَا وَهُوَ يَوْمًا أُحَدِّثُهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيُحَدِّثُنِي عَنْ التَّوْرَاةِ فَقُلْتُ لَهُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرُ يَوْمٍ طَلَعَتْ فِيهِ الشَّمْسُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ فِيهِ خُلِقَ آدَمُ وَفِيهِ أُهْبِطَ وَفِيهِ تِيبَ عَلَيْهِ وَفِيهِ قُبِضَ وَفِيهِ تَقُومُ السَّاعَةُ مَا عَلَى الْأَرْضِ مِنْ دَابَّةٍ إِلَّا وَهِيَ تُصْبِحُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ مُصِيخَةً حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ شَفَقًا مِنْ السَّاعَةِ إِلَّا ابْنَ آدَمَ وَفِيهِ سَاعَةٌ لَا يُصَادِفُهَا مُؤْمِنٌ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ يَسْأَلُ اللَّهَ فِيهَا شَيْئًا إِلَّا أَعْطَاهُ إِيَّاهُ فَقَالَ كَعْبٌ ذَلِكَ يَوْمٌ فِي كُلِّ سَنَةٍ فَقُلْتُ بَلْ هِيَ فِي كُلِّ جُمُعَةٍ فَقَرَأَ كَعْبٌ التَّوْرَاةَ ثُمَّ قَالَ صَدَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ فِي كُلِّ جُمُعَةٍ فَخَرَجْتُ فَلَقِيتُ بَصْرَةَ بْنَ أَبِي بَصْرَةَ الْغِفَارِيَّ فَقَالَ مِنْ أَيْنَ جِئْتَ قُلْتُ مِنْ الطُّورِ قَالَ لَوْ لَقِيتُكَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَأْتِيَهُ لَمْ تَأْتِهِ قُلْتُ لَهُ وَلِمَ قَالَ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا تُعْمَلُ الْمَطِيُّ إِلَّا إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَسْجِدِي وَمَسْجِدِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ فَلَقِيتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَلَامٍ فَقُلْتُ لَوْ رَأَيْتَنِي خَرَجْتُ إِلَى الطُّورِ فَلَقِيتُ كَعْبًا فَمَكَثْتُ أَنَا وَهُوَ يَوْمًا أُحَدِّثُهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيُحَدِّثُنِي عَنْ التَّوْرَاةِ فَقُلْتُ لَهُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرُ يَوْمٍ طَلَعَتْ فِيهِ الشَّمْسُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ فِيهِ خُلِقَ آدَمُ وَفِيهِ أُهْبِطَ وَفِيهِ تِيبَ عَلَيْهِ وَفِيهِ قُبِضَ وَفِيهِ تَقُومُ السَّاعَةُ مَا عَلَى الْأَرْضِ مِنْ دَابَّةٍ إِلَّا وَهِيَ تُصْبِحُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ مُصِيخَةً حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ شَفَقًا مِنْ السَّاعَةِ إِلَّا ابْنَ آدَمَ وَفِيهِ سَاعَةٌ لَا يُصَادِفُهَا عَبْدٌ مُؤْمِنٌ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ يَسْأَلُ اللَّهَ شَيْئًا إِلَّا أَعْطَاهُ إِيَّاهُ قَالَ كَعْبٌ ذَلِكَ يَوْمٌ فِي كُلِّ سَنَةٍ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ كَذَبَ كَعْبٌ قُلْتُ ثُمَّ قَرَأَ كَعْبٌ فَقَالَ صَدَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ فِي كُلِّ جُمُعَةٍ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ صَدَقَ كَعْبٌ إِنِّي لَأَعْلَمُ تِلْكَ السَّاعَةَ فَقُلْتُ يَا أَخِي حَدِّثْنِي بِهَا قَالَ هِيَ آخِرُ سَاعَةٍ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ قَبْلَ أَنْ تَغِيبَ الشَّمْسُ فَقُلْتُ أَلَيْسَ قَدْ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا يُصَادِفُهَا مُؤْمِنٌ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ وَلَيْسَتْ تِلْكَ السَّاعَةَ صَلَاةٌ قَالَ أَلَيْسَ قَدْ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ صَلَّى وَجَلَسَ يَنْتَظِرُ الصَّلَاةَ لَمْ يَزَلْ فِي صَلَاتِهِ حَتَّى تَأْتِيَهُ الصَّلَاةُ الَّتِي تُلَاقِيهَا قُلْتُ بَلَى قَالَ فَهُوَ كَذَلِكَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1431

کتاب: جمعۃ المبارک سے متعلق احکام و مسائل جمعے کے دن وہ کون سی گھڑی ہے جس میں دعا ضرور قبول ہو تی ہے؟ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں کوہِ طور پر گیا۔ وہاں میں نے کعب احبار کو پایا۔ ہم دونوں ایک دن اکٹھے رہے۔ میں انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بیان کرتا تھا اور وہ مجھے تورات کی باتیں بتاتے تھے۔ میں نے ان سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بہترین دن جس میں سورج طلوع ہو، جمعے کا دن ہے۔ اس دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا ہوئے۔ اسی دن وہ زمین پر اتارے گئے۔ اسی دن ان کی توبہ قبول ہوئی۔ اسی دن فوت ہوئے اور اسی دن قیامت قائم ہوگی۔ ابن آدم (انسان) کے سوا زمین پر جو بھی حرکت کرنے والا جانور ہے، وہ جمعے کے دن صبح سے لے کر سورج طلوع ہونے تک قیامت کے ڈر سے چپ چاپ کان لگائے رکھتا ہے (کہ کہیں صور نہ پھونک دیا جائے) مگر انسان (بے خوف رہتا ہے)۔ اور اس دن میں ایک ایسی گھڑی ہے جسے کوئی مومن نماز کی حالت میں پالے، پھر وہ اللہ تعالیٰ سے اس وقت کوئی چیز مانگے تو اللہ تعالیٰ اسے وہ چیز ضرور دے دیتا ہے۔‘‘ کعب کہنے لگے: ایسا دن ہر سال میں ایک ہوتا ہے۔ میں نے کہا: نہیں وہ گھڑی ہر جمعے میں ہوتی ہے۔ پھر کعب نے تورات پڑھی تو کہنے لگے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا ہے۔ یہ ہر جمعے کے دن ہوتا ہے۔ میں ان کے پاس سے نکلا تو میں بصرہ بن ابوبصرہ غفری رضی اللہ عنہ کو ملا۔ وہ کہنے لگے: کہاں سے آئے ہو؟ میں نے کہا: کوہِ طور سے۔ وہ کہنے لگے: اگر تمھارے طور پر جانے سے پہلے میری اور تمھاری ملاقات ہو جاتی تو تم وہاں نہ جاتے۔ میں نے کہا: کیوں؟ انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ’’سواریوں کو کام میں نہ لایا جائے مگر ان تین مساجد کی طرف جانے کے لیے: مسجد حرام، میری یہ مسجد (مسجد نبوی) اور بیت المقدس کی مسجد۔‘‘ پھر میں عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کو ملا۔ میں نے ان سے کہا: اگر آپ میرے ساتھ گزرنے والا واقعہ دیکھتے (تو محظوظ ہوتے۔) میں طور پہاڑ کی زیارت کے لیے گیا۔ وہاں میں کعب احبار کو ملا۔ میں اور وہ ایک دن اکٹھے رہے۔ میں انھیںرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں بیان کرتا تھا اور وہ مجھے تورات سے بیان کرتے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بہترین دن جس میں سورج طلوع ہوتا ہے، جمعے کا دن ہے۔ اس دن آدم علیہ السلام پیدا ہوئے۔ اسی دن جنت سے نکالے گئے۔ اسی دن ان کی توبہ قبول ہوئی۔ اسی دن فوت ہوئے اور اسی دن قیامت قائم ہوگی۔ انسان کے سوا روئے ارض پر جو بھی حرکت کرنے والا جانور ہے، وہ جمعے کے دن قیامت کے ڈر سے صبح سے لے کر طلوع شمس تک کان لگائے رکھتا ہے (کہ کہیں صور نہ پھونک دیا جائے)، نیز اس دن میں ایک ایسی گھڑی ہے کہ جو بھی مومن بندہ اسے نماز کی حالت میں پالے، پھر وہ اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز مانگے تو اللہ تعالیٰ وہ چیز اسے ضرور دے دیتا ہے۔‘‘ کعب کہنے لگے: ایسا تو سال میں ایک دن ہوتا ہے۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کہنے لگے: کعب نے غلط کہا۔ میں نے کہا: پھر کعب نے تورات پڑھی اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےسچ فرمایا ہے۔ یہ ہر جمعے کو ہوتا ہے۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کہنے لگے: کعب نے سچ کہا۔ میں یقیناً اس گھڑی کو جانتا ہوں۔ میں نے کہا: برادر محترم! مجھے ضرور بتائیے۔ انھوں نے کہا: یہ جمعے کے دن غروب شمس سے پہلے آخری گھڑی ہے۔ میں نے کہا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے نہیں سنا: ’’مومن اسے نماز کی حالت میں پائے۔‘‘ جب کہ یہ گھڑی (دن کی آخری گھڑی) تو نماز کا وقت ہی نہیں۔ وہ کہنے لگے: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے نہیں سنا: ’’جو آدمی نماز پڑھ کر اگلی نماز کے انتظار میں بیٹھا رہے تو وہ نماز ہی میں ہوتا ہے حتی کہ بعد والی نماز کا وقت ہو جائے۔‘‘ میں نے کہا: کیوں نہیں (بلکہ سنا ہے۔) انھوں نے کہا: یہاں بھی یہی مراد ہے۔ (یعنی نماز کے انتظار میں ہو۔)
تشریح : (۱)’’کوہِ طور‘‘ جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوئے۔ قرآن میں اسے ’’وادیٔ مقدس‘‘ کہا گیا ہے۔ (۲) ’’کان لگائے رکھتا ہے‘‘ یعنی توجہ رکھتا ہے اور منتظر رہتا ہے۔ شاید جانوروں کو جمعے کے دن کا علم ہو جاتا ہوگا یا ان میں یہ چیز طبعی ہوگی کہ ہر جمعے کے دن وہ خوف زدہ رہتے ہوں گے اور یہی بات زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے کیونکہ جانوروں کے سب کام طبعاً اور فطرتاً ہوتے ہیں جب کہ انسان فطرت کے خلاف بھی کام کر لیتا ہے۔ (۳) ’’ایسی گھڑی ہے‘‘ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کی مرفوع روایت کے مطابق عصر کے بعد آخری گھڑی ہے۔ بعض روایات کے مطابق وہ گھڑی امام کے منبر پر چڑھنے سے لے کر نماز سے فارغ ہونے تک ہے۔ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے یوں تطبیق دی ہے کہ ساعت یومی تو عصر کے بعد ہی ہے مگر جمعہ میں اجتماع مومنین کی برکت سے خطبہ و نماز کا وقت بھی افضل ہو جاتا ہے، لہٰذا وہ بھی قبولیت کا وقت بن جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ کبھی یہ گھڑی ہوتی ہے کبھی وہ۔ اکثر اہل علم نے حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کی روایت کو ترجیح دی ہے۔ (۴) ’’سواریوں کو کام میں نہ لایا جائے‘‘ یعنی قربت و ثواب کے حصول کے لیے لمبا سفر نہ کیا جائے یہ سمجھ کر کہ فلاں جگہ مقدس ہے۔ وہاں قرب و ثواب زیادہ ہوگا، سوائے ان تین مساجد کے۔ راویٔ حدیث حضرت بصرہ غفاری رضی اللہ عنہ نے کسی بھی مقدس مقام (خواہ وہ مسجد ہو یا کوئی اور مقام) کی طرف قربت اور ثواب کی نیت سے لمبا سفر کرنا درست نہیں سمجھا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی یہی مفہوم درست سمجھا۔ تبھی تو ان کی بات کا انکار نہیں کیا۔ اور یہی مفہوم درست ہے۔ یہ بحث تفصیلاً پیچھے گزر چکی ہے۔ دیکھیے، حدیث: ۷۰۱۔ (۵) بیت المقدس کی مسجد سے مراد بیت المقدس ہی ہے کیونکہ جو جگہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے خاص کی گئی ہے، وہ مسجد ہے۔ اور بیت المقدس بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے بنایا گیا تھا۔ (۶) ’’وہ نماز ہی میں ہے‘‘ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کی یہ تاویل ایک فقیہ صحابی کی تاویل ہے جو معتبر ہے لیکن درج ذیل روایت (۱۴۳۳) میں یہ الفاظ ہیں: [قائم یصلی] ’’یعنی وہ کھڑا نماز پڑھتا ہو۔‘‘ حالانکہ نماز کا انتظار عموماً بیٹھ کر ہوتا ہے۔ تو علماء نے ان کے درمیان یوں تطبیق دی ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں قائم کے معنی حضرت عبداللہ بن سلام کی حدیث کی روشنی میں ’’ثابت‘‘ کے ہیں، یعنی بیٹھ کر انتظار کرنے کے ہیں کیونکہ عموماً نماز کا انتظار بیٹھ کر ہی کیا جاتا ہے۔ یا پھر یہاں قائم کی قید ’’قید و صفی‘‘ ہے، یعنی یہ قید نمازی کی عمومی حالت کے پیش نظر ہے کیونکہ نماز کھڑے ہو کر ہی ادا کی جاتی ہے، لہٰذا مذکورہ الفاظ کی روشنی میں نماز کا انتظار کھڑے ہوکر لازمی قرار نہیں پاتا۔ واللہ أعلم۔ مزید دیکھیے: (التعلیقات السلفیہ (طبع جدید): ۳۳۳/۲، ۳۳۴) (۱)’’کوہِ طور‘‘ جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوئے۔ قرآن میں اسے ’’وادیٔ مقدس‘‘ کہا گیا ہے۔ (۲) ’’کان لگائے رکھتا ہے‘‘ یعنی توجہ رکھتا ہے اور منتظر رہتا ہے۔ شاید جانوروں کو جمعے کے دن کا علم ہو جاتا ہوگا یا ان میں یہ چیز طبعی ہوگی کہ ہر جمعے کے دن وہ خوف زدہ رہتے ہوں گے اور یہی بات زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے کیونکہ جانوروں کے سب کام طبعاً اور فطرتاً ہوتے ہیں جب کہ انسان فطرت کے خلاف بھی کام کر لیتا ہے۔ (۳) ’’ایسی گھڑی ہے‘‘ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کی مرفوع روایت کے مطابق عصر کے بعد آخری گھڑی ہے۔ بعض روایات کے مطابق وہ گھڑی امام کے منبر پر چڑھنے سے لے کر نماز سے فارغ ہونے تک ہے۔ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے یوں تطبیق دی ہے کہ ساعت یومی تو عصر کے بعد ہی ہے مگر جمعہ میں اجتماع مومنین کی برکت سے خطبہ و نماز کا وقت بھی افضل ہو جاتا ہے، لہٰذا وہ بھی قبولیت کا وقت بن جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ کبھی یہ گھڑی ہوتی ہے کبھی وہ۔ اکثر اہل علم نے حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کی روایت کو ترجیح دی ہے۔ (۴) ’’سواریوں کو کام میں نہ لایا جائے‘‘ یعنی قربت و ثواب کے حصول کے لیے لمبا سفر نہ کیا جائے یہ سمجھ کر کہ فلاں جگہ مقدس ہے۔ وہاں قرب و ثواب زیادہ ہوگا، سوائے ان تین مساجد کے۔ راویٔ حدیث حضرت بصرہ غفاری رضی اللہ عنہ نے کسی بھی مقدس مقام (خواہ وہ مسجد ہو یا کوئی اور مقام) کی طرف قربت اور ثواب کی نیت سے لمبا سفر کرنا درست نہیں سمجھا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی یہی مفہوم درست سمجھا۔ تبھی تو ان کی بات کا انکار نہیں کیا۔ اور یہی مفہوم درست ہے۔ یہ بحث تفصیلاً پیچھے گزر چکی ہے۔ دیکھیے، حدیث: ۷۰۱۔ (۵) بیت المقدس کی مسجد سے مراد بیت المقدس ہی ہے کیونکہ جو جگہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے خاص کی گئی ہے، وہ مسجد ہے۔ اور بیت المقدس بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے بنایا گیا تھا۔ (۶) ’’وہ نماز ہی میں ہے‘‘ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کی یہ تاویل ایک فقیہ صحابی کی تاویل ہے جو معتبر ہے لیکن درج ذیل روایت (۱۴۳۳) میں یہ الفاظ ہیں: [قائم یصلی] ’’یعنی وہ کھڑا نماز پڑھتا ہو۔‘‘ حالانکہ نماز کا انتظار عموماً بیٹھ کر ہوتا ہے۔ تو علماء نے ان کے درمیان یوں تطبیق دی ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں قائم کے معنی حضرت عبداللہ بن سلام کی حدیث کی روشنی میں ’’ثابت‘‘ کے ہیں، یعنی بیٹھ کر انتظار کرنے کے ہیں کیونکہ عموماً نماز کا انتظار بیٹھ کر ہی کیا جاتا ہے۔ یا پھر یہاں قائم کی قید ’’قید و صفی‘‘ ہے، یعنی یہ قید نمازی کی عمومی حالت کے پیش نظر ہے کیونکہ نماز کھڑے ہو کر ہی ادا کی جاتی ہے، لہٰذا مذکورہ الفاظ کی روشنی میں نماز کا انتظار کھڑے ہوکر لازمی قرار نہیں پاتا۔ واللہ أعلم۔ مزید دیکھیے: (التعلیقات السلفیہ (طبع جدید): ۳۳۳/۲، ۳۳۴)