سنن النسائي - حدیث 1421

كِتَابُ الْجُمْعَةِ عَدَدُ صَلَاةِ الْجُمْعَةِ صحيح أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا شَرِيكٌ عَنْ زُبَيْدٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى قَالَ قَالَ عُمَرُ صَلَاةُ الْجُمُعَةِ رَكْعَتَانِ وَصَلَاةُ الْفِطْرِ رَكْعَتَانِ وَصَلَاةُ الْأَضْحَى رَكْعَتَانِ وَصَلَاةُ السَّفَرِ رَكْعَتَانِ تَمَامٌ غَيْرُ قَصْرٍ عَلَى لِسَانِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي لَيْلَى لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عُمَرَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1421

کتاب: جمعۃ المبارک سے متعلق احکام و مسائل نماز جمعہ کی رکعات کی تعداد "حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جمعہ، عیدالفطر، عیدالاضحیٰ اور سفر کی (رباعی) نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی دو دو رکعت ہے اور یہ مکمل نماز ہے۔ اس میں کوئی کمی نہیں۔ امام عبدالرحمٰن (نسائی) رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کوئی روایت نہیں سنی۔ (لہٰذا اس روایت کی سند منقطع ہے۔) "
تشریح : (۱) سفر کی نماز ان دوسری نمازوں کے ساتھ اس لیے شامل ہے کہ یہ بھی اگر رباعی (چار رکعت والی) ہوں تو دو رکعت ہے، سوائے مغرب کی نماز کے، مغرب کی نماز تین رکعت ہی ہے، چاہے سفر ہو یا حضر، جب کہ باقی مذکورہ نمازیں ہیں ہی دو رکعت۔ (۲) مذکورہ روایت کی بابت امام نسائی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہی نہیں بلکہ کوئی روایت نہیں سنی۔ علمائے محققین اس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ مذکورہ روایت دیگر اسناد اور طرق سے بھی مروی ہے اور ان طرق کو محققین نے صحیح قرار دیا ہے۔ بنا بریں مذکورہ روایت منقطع ہونے کے باوجود دیگر شواہد اور متابعات کی بنا پر صحیح ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبی شرح سنن النسائي: ۲۸۰/۱۶) (۱) سفر کی نماز ان دوسری نمازوں کے ساتھ اس لیے شامل ہے کہ یہ بھی اگر رباعی (چار رکعت والی) ہوں تو دو رکعت ہے، سوائے مغرب کی نماز کے، مغرب کی نماز تین رکعت ہی ہے، چاہے سفر ہو یا حضر، جب کہ باقی مذکورہ نمازیں ہیں ہی دو رکعت۔ (۲) مذکورہ روایت کی بابت امام نسائی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہی نہیں بلکہ کوئی روایت نہیں سنی۔ علمائے محققین اس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ مذکورہ روایت دیگر اسناد اور طرق سے بھی مروی ہے اور ان طرق کو محققین نے صحیح قرار دیا ہے۔ بنا بریں مذکورہ روایت منقطع ہونے کے باوجود دیگر شواہد اور متابعات کی بنا پر صحیح ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبی شرح سنن النسائي: ۲۸۰/۱۶)