سنن النسائي - حدیث 1420

كِتَابُ الْجُمْعَةِ الْكَلَامُ وَالْقِيَامُ بَعْدَ النُّزُولِ عَنْ الْمِنْبَرِ شاذ ، و المحفوظ : أن ذلك كان في صلاة العشاء أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ مَيْمُونٍ قَالَ حَدَّثَنَا الْفِرْيَابِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ عَنْ أَنَسٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْزِلُ عَنْ الْمِنْبَرِ فَيَعْرِضُ لَهُ الرَّجُلُ فَيُكَلِّمُهُ فَيَقُومُ مَعَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى يَقْضِيَ حَاجَتَهُ ثُمَّ يَتَقَدَّمُ إِلَى مُصَلَّاهُ فَيُصَلِّي

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1420

کتاب: جمعۃ المبارک سے متعلق احکام و مسائل منبر سے اترنے کے بعد کھڑ ے ہو کر باتیں کرنا حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (دو خطبوں کے بعد) منبر سے اترتے تو کبھی کوئی آدمی آپ کے سامنے آکر آپ سے باتیں شروع کر دیتا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ کھڑے رہتے حتی کہ وہ بات چیت مکمل کرتا۔ پھر آپ اپنی مخصوص جائے نماز کی طرف بڑھتے اور نماز پڑھتے، یعنی پڑھاتے۔
تشریح : مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے تاہم اس قسم کا ایک واقعہ صحیح مسلم میں ہے، جس میں دوران خطبہ میں، خطبہ چھوڑ کر سائل سے گفتگو کرنے کا ذکر ہے۔ دیکھیے: (صحیح مسلم، الجمعۃ، حدیث: ۸۷۶) علاوہ ازیں اس قسم کا واقعہ کسی نماز کے موقع پر بھی پیش آیا تھا جیسا کہ جامع ترمذی میں ہے کہ نماز کی اقامت کہہ دی گئی تو ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ لیا اور پ سے باتیں کرنے لگا حتی کہ کچھ لوگوں کو اونگھ آنے لگی۔‘‘ دیکھیے: (جامع الترمذي، الجمعۃ، حدیث: ۵۱۸) نیز محققین علماء کے نزدیک مذکورہ روایت میں جمعے کا ذکر شاذ ہے، یعنی یہ واقعہ جمعے کا نہیں بلکہ عشاء کی نماز کا ہے۔ بنابریں اگر کوئی شخص یا امام کوئی ضروری بات کرنا چاہے تو کوئی حرج نہیں مگر دیگر لوگوں کی مصروفیت اور اذیت کا خیال رکھنا چاہیے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ضعیف سنن النسائي، للألباني، رقم: ۱۴۱۸، و ذخیرۃ العقبی شرح سنن النسائي: ۲۷۷/۱۶) مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے تاہم اس قسم کا ایک واقعہ صحیح مسلم میں ہے، جس میں دوران خطبہ میں، خطبہ چھوڑ کر سائل سے گفتگو کرنے کا ذکر ہے۔ دیکھیے: (صحیح مسلم، الجمعۃ، حدیث: ۸۷۶) علاوہ ازیں اس قسم کا واقعہ کسی نماز کے موقع پر بھی پیش آیا تھا جیسا کہ جامع ترمذی میں ہے کہ نماز کی اقامت کہہ دی گئی تو ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ لیا اور پ سے باتیں کرنے لگا حتی کہ کچھ لوگوں کو اونگھ آنے لگی۔‘‘ دیکھیے: (جامع الترمذي، الجمعۃ، حدیث: ۵۱۸) نیز محققین علماء کے نزدیک مذکورہ روایت میں جمعے کا ذکر شاذ ہے، یعنی یہ واقعہ جمعے کا نہیں بلکہ عشاء کی نماز کا ہے۔ بنابریں اگر کوئی شخص یا امام کوئی ضروری بات کرنا چاہے تو کوئی حرج نہیں مگر دیگر لوگوں کی مصروفیت اور اذیت کا خیال رکھنا چاہیے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ضعیف سنن النسائي، للألباني، رقم: ۱۴۱۸، و ذخیرۃ العقبی شرح سنن النسائي: ۲۷۷/۱۶)