سنن النسائي - حدیث 141

صِفَةُ الْوُضُوءِ الْأَمْرُ بِإِسْبَاغِ الْوُضُوءِ صحيح أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَرَبِيٍّ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو جَهْضَمٍ قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كُنَّا جُلُوسًا إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ فَقَالَ وَاللَّهِ مَا خَصَّنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَيْءٍ دُونَ النَّاسِ إِلَّا بِثَلَاثَةِ أَشْيَاءَ فَإِنَّهُ أَمَرَنَا أَنْ نُسْبِغَ الْوُضُوءَ وَلَا نَأْكُلَ الصَّدَقَةَ وَلَا نُنْزِيَ الْحُمُرَ عَلَى الْخَيْلِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 141

کتاب: وضو کا طریقہ وضو مکمل اور اچھی طرح کرنے کا حکم عبداللہ بن عبید اللہ بن عباس کہتے ہیں کہ ہم حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھے تھے کہ آپ نے فرمایا: اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین چیزوں کے سوا ہمیں لوگوں سے الگ کوئی خصوصی حکم نہیں دیا۔ آپ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم وضو مکمل اور اچھی طرح کریں، صدقہ نہ کھائیں اور گدھوں کی گھوڑیوں سے جفتی نہ کرائیں۔
تشریح : (۱) صدقہ و زکاۃ کی حرمت کے علاوہ باقی مذکورہ چیزیں اہل بیت سے خاص نہیں، صرف صدقہ و زکاۃ نہ کھانے میں انھیں انفرادیت ہے۔ باقی مذکورہ مسائل محض تاکید مزید کے معنی میں ہیں۔ (۲) ’’گدھوں کی گھوڑیوں سے جفتی نہ کرائیں۔‘‘ کیونکہ گھوڑا نسلکے اعتبار سے اعلیٰ اور مبارک جانور ہے، اس لیے گھوڑی سے خچر حاصل کرنا اعلیٰ اور عمدہ پر ادنیٰ اور کم تر کو ترجیح دینا ہے، اس لیے پسندیدہ نہیں ہے، تاہم خچر خریدنا اور اس پر سواری کرنا ممنوع نہیں ہے کیونکہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خچر کا تحفہ ملا تو آپ نے قبول فرمایا اور بارہا اس پر سواری بھی کی، نیز اللہ تعالیٰ نے سورئہ نحل آیت: ۸ میں خچروں کی سواری اور ان کے باعث زینت ہونے کی اپنی نعمت شمار کیا ہے۔ بعض علماء اس کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسے بطور سواری استعمال کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس میں ایک درجہ کراہت تو ہے مگر اس کی افزائش کا مروجہ طریقہ جائز ہے اور حدیث میں نہی حرمت کے لیے نہیں بلکہ تنزیہ کے لیے ہے، لیکن دلائل کی رو سے بہتر اور راجح موقف یہ ہے کہ اس طریقے سے اس کا حصول محل نظر ہے، البتہ خچر سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے جیسا کہ فرمان الٰہی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے، نیز نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: [إنما یفعل ذلک الذین لایعلمون] (مسند احمد: ۹۸/۱، و سنن النسائي، الخیل، حدیث: ۳۶۰۱) ’’یہ کام بے علم لوگ کرتے ہیں۔‘‘ سے ظاہر ہوتا ہے کہ باشعور اور اچھے لوگ یہ کام نہیں کرتے۔ گویا اس میں ایک لحاظ سے سرزنش کا پہلو ہے۔ بنا بریں گدھے اور گھوڑی کی جفتی خود کرانا ممنوع ہے۔ ان میں یہ عمل ازخود ہو جائے یا کئوی جاہل وگ کریں تو ہمارے لیے ان سے پیدا ہونے والے خچر سے فائدہ اٹھانا بالکل جائز ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (معالم السنن للخطابي: ۲۱/۲، و شرح معاني الآثار للطحاوي: ۲۷۳/۳، و ذخیرۃ العقبی، شرح سنن النسائي: ۲۴۵-۲۳۸/۳) (۱) صدقہ و زکاۃ کی حرمت کے علاوہ باقی مذکورہ چیزیں اہل بیت سے خاص نہیں، صرف صدقہ و زکاۃ نہ کھانے میں انھیں انفرادیت ہے۔ باقی مذکورہ مسائل محض تاکید مزید کے معنی میں ہیں۔ (۲) ’’گدھوں کی گھوڑیوں سے جفتی نہ کرائیں۔‘‘ کیونکہ گھوڑا نسلکے اعتبار سے اعلیٰ اور مبارک جانور ہے، اس لیے گھوڑی سے خچر حاصل کرنا اعلیٰ اور عمدہ پر ادنیٰ اور کم تر کو ترجیح دینا ہے، اس لیے پسندیدہ نہیں ہے، تاہم خچر خریدنا اور اس پر سواری کرنا ممنوع نہیں ہے کیونکہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خچر کا تحفہ ملا تو آپ نے قبول فرمایا اور بارہا اس پر سواری بھی کی، نیز اللہ تعالیٰ نے سورئہ نحل آیت: ۸ میں خچروں کی سواری اور ان کے باعث زینت ہونے کی اپنی نعمت شمار کیا ہے۔ بعض علماء اس کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسے بطور سواری استعمال کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس میں ایک درجہ کراہت تو ہے مگر اس کی افزائش کا مروجہ طریقہ جائز ہے اور حدیث میں نہی حرمت کے لیے نہیں بلکہ تنزیہ کے لیے ہے، لیکن دلائل کی رو سے بہتر اور راجح موقف یہ ہے کہ اس طریقے سے اس کا حصول محل نظر ہے، البتہ خچر سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے جیسا کہ فرمان الٰہی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے، نیز نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: [إنما یفعل ذلک الذین لایعلمون] (مسند احمد: ۹۸/۱، و سنن النسائي، الخیل، حدیث: ۳۶۰۱) ’’یہ کام بے علم لوگ کرتے ہیں۔‘‘ سے ظاہر ہوتا ہے کہ باشعور اور اچھے لوگ یہ کام نہیں کرتے۔ گویا اس میں ایک لحاظ سے سرزنش کا پہلو ہے۔ بنا بریں گدھے اور گھوڑی کی جفتی خود کرانا ممنوع ہے۔ ان میں یہ عمل ازخود ہو جائے یا کئوی جاہل وگ کریں تو ہمارے لیے ان سے پیدا ہونے والے خچر سے فائدہ اٹھانا بالکل جائز ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (معالم السنن للخطابي: ۲۱/۲، و شرح معاني الآثار للطحاوي: ۲۷۳/۳، و ذخیرۃ العقبی، شرح سنن النسائي: ۲۴۵-۲۳۸/۳)