سنن النسائي - حدیث 1408

كِتَابُ الْجُمْعَةِ بَاب حَضِّ الْإِمَامِ فِي خُطْبَتِهِ عَلَى الْغُسْلِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ وَهُوَ قَائِمٌ عَلَى الْمِنْبَرِ مَنْ جَاءَ مِنْكُمْ الْجُمُعَةَ فَلْيَغْتَسِلْ قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ مَا أَعْلَمُ أَحَدًا تَابَعَ اللَّيْثَ عَلَى هَذَا الْإِسْنَادِ غَيْرَ ابْنِ جُرَيْجٍ وَأَصْحَابُ الزُّهْرِيِّ يَقُولُونَ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِيهِ بَدَلَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1408

کتاب: جمعۃ المبارک سے متعلق احکام و مسائل امام کااپنے خطبےمیں لوگو ں کوجمعے کے دن غسل دینے کی ترغیب دینا حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر ارشاد فرمایا: ’’تم میں سے جو شخص جمعے کے دن آئے، وہ غسل کرے۔‘‘ امام ابو عبدالرحمٰن (نسائی) رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ حضرت ابن جریج کے علاوہ کسی راوی نے اس سند کے بیان میں حضرت لیث کی متابعت (موافقت) کی ہو۔ امام زہری کے دوسرے شاگرد عبداللہ بن عمر کی بجائے سالم بن عبداللہ عن ابیہ کہتے ہیں۔
تشریح : (۱) یہ روایت امام زہری سے بیان کرنے والے بہت سے راوی ہیں، جیسے ابراہیم بن نشیط، محمد بن ولید زبیدی، سفیان بن عینیہ اور ابن جریج۔ یہ سب امام زہری کا استاد حضرت سالم بن عبداللہ بن عمر بتاتے ہیں۔ صرف حضرت لیث اور ابن جریج نے ان کا استاد عبداللہ بن عبداللہ بن عمر بتایا ہے۔ دیگر شاگردان کی طرح ابن جریج امام زہری کا استاد سالم بھی بتاتے ہیں۔ اس طرح وہ جمہور تلامذہ کی موافقت بھی کرتے ہیں۔ غرضیکہ مذکورہ کلام سے امام نسائی رحمہ اللہ امام لیث کی، جن پر ابن جریج نے بھی ان کی موافقت کی ہے، روایت کی تضعیف نہیں فرما رہے، بلکہ ان کا مقصد صرف ذکر اختلاف ہے کیونکہ امام لیث رحمہ اللہ ثقہ اور ثبت (انتہائی قابل اعتماد) ہیں۔ گویا یہ اختلاف ثقہ راوی کی زیادتی کے قبیل سے ہے جو کہ محدثین کے نزدیک سبب ضعف میں سے نہیں، اس سے معلوم ہوا کہ یہ روایت میں امام زہری کے دو شیخ ہیں، سالم اور عبداللہ بن عبداللہ۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں دونوں شیوخ کے واسطے سے روایت نقل کی ہے۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے: (ذخیرۃ العقبی شرح سنن النسائ: ۲۴۲/۱۶) الحاصل: یہاں کثرت رواۃ کی بنا پر ترجیح نہیں بلکہ تطبیق ہی درست ہے۔ واللہ أعلم۔ (۲) جمعے کے دن غسل کی بحث کے لیے دیکھیے، حدیث: ۱۳۷۶، ۱۳۷۷ اور اسی کتاب کا ابتدائیہ۔ (۱) یہ روایت امام زہری سے بیان کرنے والے بہت سے راوی ہیں، جیسے ابراہیم بن نشیط، محمد بن ولید زبیدی، سفیان بن عینیہ اور ابن جریج۔ یہ سب امام زہری کا استاد حضرت سالم بن عبداللہ بن عمر بتاتے ہیں۔ صرف حضرت لیث اور ابن جریج نے ان کا استاد عبداللہ بن عبداللہ بن عمر بتایا ہے۔ دیگر شاگردان کی طرح ابن جریج امام زہری کا استاد سالم بھی بتاتے ہیں۔ اس طرح وہ جمہور تلامذہ کی موافقت بھی کرتے ہیں۔ غرضیکہ مذکورہ کلام سے امام نسائی رحمہ اللہ امام لیث کی، جن پر ابن جریج نے بھی ان کی موافقت کی ہے، روایت کی تضعیف نہیں فرما رہے، بلکہ ان کا مقصد صرف ذکر اختلاف ہے کیونکہ امام لیث رحمہ اللہ ثقہ اور ثبت (انتہائی قابل اعتماد) ہیں۔ گویا یہ اختلاف ثقہ راوی کی زیادتی کے قبیل سے ہے جو کہ محدثین کے نزدیک سبب ضعف میں سے نہیں، اس سے معلوم ہوا کہ یہ روایت میں امام زہری کے دو شیخ ہیں، سالم اور عبداللہ بن عبداللہ۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں دونوں شیوخ کے واسطے سے روایت نقل کی ہے۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے: (ذخیرۃ العقبی شرح سنن النسائ: ۲۴۲/۱۶) الحاصل: یہاں کثرت رواۃ کی بنا پر ترجیح نہیں بلکہ تطبیق ہی درست ہے۔ واللہ أعلم۔ (۲) جمعے کے دن غسل کی بحث کے لیے دیکھیے، حدیث: ۱۳۷۶، ۱۳۷۷ اور اسی کتاب کا ابتدائیہ۔