سنن النسائي - حدیث 1405

كِتَابُ الْجُمْعَةِ بَاب كَيْفِيَّةِ الْخُطْبَةِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَقَ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ عَلَّمَنَا خُطْبَةَ الْحَاجَةِ الْحَمْدُ لِلَّهِ نَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَسَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ثُمَّ يَقْرَأُ ثَلَاثَ آيَاتٍ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ أَبُو عُبَيْدَةَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِيهِ شَيْئًا وَلَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ وَلَا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1405

کتاب: جمعۃ المبارک سے متعلق احکام و مسائل خطبے کی کیفیت حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ضرورت کے موقع پر (یوں) خطبہ سکھایا: [الحمد للہ نستعینہ و نستغفرہ ……… ورسولہ] ’’ہر تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ ہم اس سے مدد طلب کرتے ہیں اور اس سے بخشش طلب کرتے ہیں۔ اور اپنے نفس کی شرارتوں اور اپنے اعمال کی خرابیوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں۔ جس شخص کو اللہ تعالیٰ ہدات دے، کوئی اسے گمراہ کرنے والا نہیں اور جسے وہ گمراہ کرے دے، اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی (سچا) معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اس کے بندے اور رسول ہیں۔‘‘ پھر آپ تین آیات پڑھتے: (یایھا الذین امنوا ……… وانتم مسلمون) ’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمھیں جب بھی موت آئے، اسلام ہی کی حالت میں آئے۔‘‘ (یایھا الناس اتقوا ……… ان اللہ کان علیکم رقیبا) ’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان (حضرت آدم علیہ السلام) سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی (حضرت حواء علیہا السلام) کو پیدا کیا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیے۔ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو جس کے واسطے سے تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور رشتے توڑنے سے ڈرو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ تم پر نگران ہے۔‘‘ (یایھا الذین امنوا اتقوا اللہ وقولوا قولا سدیدا) ’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سیدھی سچی بات کرو۔‘‘ امام ابو عبدالرحمٰن (نسائی) رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبیدہ نے اپنے والد محترم (حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ) سے کوئی روایت نہیں سنی اور اسی طرح حضرت عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن مسعود نے بھی اپنے والد محترم سے کوئی روایت نہیں سنی۔ اس طرح عبدالجبار بن وائل نے بھی اپنے والد محترم (حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ) سے کوئی روایت نہیں سنی۔
تشریح : (۱) مذکورہ روایت سند کے لحاظ سے منقطع ہے۔ محقق کتاب نے بھی اسے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے دیگر شواہد کی بنا پر صحیح قرار دیا ہے۔ دلائل کی رو سے راجح اور درست بات یہی ہے کہ مذکورہ روایت شواہد کی بنا پر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (خطبۃ الحاجۃ لشیخ ناصر الدین الألباني، وذخیرۃ العقبی، شرح سنن النسائي: ۲۳۸،۲۳۷/۱۶) (۲) متعلقہ حدیث میں تو صرف ابوعبیدہ کا ذکر ہے۔ باقی دو حضرات کا ذکر بالقبع کر دیا گیا ہے کیونکہ تینوں بزرگ اس بات میں شریک ہیں کہ انھوں نے اپنے والد سے کچھ نہیں سنا۔ تینوں کے والد صحابی ہیں۔ (۳) ’’ضرورت کے موقع پر‘‘ یعنی جب بھی خطبے کی ضرورت ہو، خواہ وعظ ہو یا نکاح یا کچھ اور۔ اسی وجہ سے امام نسائی رحمہ اللہ اس روایت کو خطبۂ جمعہ میں لائے ہیں کیونکہ یہ بھی ایک حاجت اور ضرورت ہے۔ بعض حضرات نے مذکورہ آیات کی مناسبت سے یہاں حاجت نکاح مراد لی ہے۔ استاد محترم حضرت الحافظ محمد گوندلوی محدث رحمہ اللہ درس بخاری کے پغاز میں یہی خطبہ پڑھا کرتے تھے۔ ان آیات میں تقوے کا حکم ہے اور تقویٰ ہر کام میں ضروری ہے، نہ کہ صرف نکاح میں۔ واللہ أعلم۔ (۴) ’’جسے وہ گمراہ کر دے‘‘ اللہ تعالیٰ کسی کو اپنی طرف سے گمراہ نہیں کرتا بلکہ اللہ تعالیٰ کے گمراہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ گمراہ کو گمراہی سے زبردستی نہیں روکتا بلکہ وہ اپنی مرضی سے جس طرف جاتا ہے، جانے دیتا ہے کیونکہ ہر چیز کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے، اسی لیے اس کا انتاسب بھی اسی کی طرف کر دیا جاتا ہے، ورنہ درحقیقت اس میں انسان کے اپنے اس ارادے و اختیار کا دخل ہوتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے بطور امتحان انسان کو نوازا ہے۔ (۱) مذکورہ روایت سند کے لحاظ سے منقطع ہے۔ محقق کتاب نے بھی اسے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے دیگر شواہد کی بنا پر صحیح قرار دیا ہے۔ دلائل کی رو سے راجح اور درست بات یہی ہے کہ مذکورہ روایت شواہد کی بنا پر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (خطبۃ الحاجۃ لشیخ ناصر الدین الألباني، وذخیرۃ العقبی، شرح سنن النسائي: ۲۳۸،۲۳۷/۱۶) (۲) متعلقہ حدیث میں تو صرف ابوعبیدہ کا ذکر ہے۔ باقی دو حضرات کا ذکر بالقبع کر دیا گیا ہے کیونکہ تینوں بزرگ اس بات میں شریک ہیں کہ انھوں نے اپنے والد سے کچھ نہیں سنا۔ تینوں کے والد صحابی ہیں۔ (۳) ’’ضرورت کے موقع پر‘‘ یعنی جب بھی خطبے کی ضرورت ہو، خواہ وعظ ہو یا نکاح یا کچھ اور۔ اسی وجہ سے امام نسائی رحمہ اللہ اس روایت کو خطبۂ جمعہ میں لائے ہیں کیونکہ یہ بھی ایک حاجت اور ضرورت ہے۔ بعض حضرات نے مذکورہ آیات کی مناسبت سے یہاں حاجت نکاح مراد لی ہے۔ استاد محترم حضرت الحافظ محمد گوندلوی محدث رحمہ اللہ درس بخاری کے پغاز میں یہی خطبہ پڑھا کرتے تھے۔ ان آیات میں تقوے کا حکم ہے اور تقویٰ ہر کام میں ضروری ہے، نہ کہ صرف نکاح میں۔ واللہ أعلم۔ (۴) ’’جسے وہ گمراہ کر دے‘‘ اللہ تعالیٰ کسی کو اپنی طرف سے گمراہ نہیں کرتا بلکہ اللہ تعالیٰ کے گمراہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ گمراہ کو گمراہی سے زبردستی نہیں روکتا بلکہ وہ اپنی مرضی سے جس طرف جاتا ہے، جانے دیتا ہے کیونکہ ہر چیز کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے، اسی لیے اس کا انتاسب بھی اسی کی طرف کر دیا جاتا ہے، ورنہ درحقیقت اس میں انسان کے اپنے اس ارادے و اختیار کا دخل ہوتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے بطور امتحان انسان کو نوازا ہے۔