ذِكْرُ الْفِطْرَةِ التَّوْقِيتُ فِي ذَلِكَ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ هُوَ ابْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ وَقَّتَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قَصِّ الشَّارِبِ وَتَقْلِيمِ الْأَظْفَارِ وَحَلْقِ الْعَانَةِ وَنَتْفِ الْإِبْطِ أَنْ لَا نَتْرُكَ أَكْثَرَ مِنْ أَرْبَعِينَ يَوْمًا وَقَالَ مَرَّةً أُخْرَى أَرْبَعِينَ لَيْلَةً
کتاب: امور فطرت کا بیان
ان کاموں کے لیے مدت کا تعین
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موننچھیں کاٹنے، ناخن تراشنے، زیر ناف کے بال مونڈنے اور بغلوں کے بال اکھیڑنے کی لیے یہ مدت مقرر کی ہے کہ ہم چالیس دن سے زائد نہ گزرنے دیں۔ اور ایک دفعہ راوی نے چالیس رات کہا۔
تشریح :
(۱) دن اور رات ایک دوسرے کو لازم ہیں، لہٰذا دن کہا جائے یا رات، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ (۲) چالیس دن آخری حد ہے، ورنہ جب بھی ضرورت محسوس ہو، یعنی طبیعت کو گھن آئے یا گندگی اور میل کچیل جمع ہونے لگے، تو صفائی کی جا سکتی ہے، بال ہوں یا ناخن۔
(۱) دن اور رات ایک دوسرے کو لازم ہیں، لہٰذا دن کہا جائے یا رات، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ (۲) چالیس دن آخری حد ہے، ورنہ جب بھی ضرورت محسوس ہو، یعنی طبیعت کو گھن آئے یا گندگی اور میل کچیل جمع ہونے لگے، تو صفائی کی جا سکتی ہے، بال ہوں یا ناخن۔