سنن النسائي - حدیث 1397

كِتَابُ الْجُمْعَةِ مَقَامُ الْإِمَامِ فِي الْخُطْبَةِ صحيح أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ سَوَّادِ بْنِ الْأَسْوَدِ قَالَ أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ أَنَّ أَبَا الزُّبَيْرِ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا خَطَبَ يَسْتَنِدُ إِلَى جِذْعِ نَخْلَةٍ مِنْ سَوَارِي الْمَسْجِدِ فَلَمَّا صُنِعَ الْمِنْبَرُ وَاسْتَوَى عَلَيْهِ اضْطَرَبَتْ تِلْكَ السَّارِيَةُ كَحَنِينِ النَّاقَةِ حَتَّى سَمِعَهَا أَهْلُ الْمَسْجِدِ حَتَّى نَزَلَ إِلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاعْتَنَقَهَا فَسَكَتَتْ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1397

کتاب: جمعۃ المبارک سے متعلق احکام و مسائل خطبے میں امام کےکھٹرا ہو نے کی جگہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ دیتے تھے تو مسجد کے ستونوں میں سے ایک کھجور کے تنے کے ساتھ سہارا لیا کرتے تھے۔ جب منبر تیار ہوا اور آپ (خطبے کے لیے) اس پر تشریف فرما ہوئے تو وہ ستون بے چین ہوکر اونٹنی کی طرح رونے لگا حتی کہ سب مسجد والوں نے اس کی آواز سنی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اتر کر اس کی طرف آئے اور اسے گلے سے لگایا، پھر وہ (آہستہ آہستہ) چپ ہوگیا۔
تشریح : (۱) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مسجد نبوی کے تام ستون کھجور کے تنے کے تھے۔ مذکورہ تنے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ٹیک لگاتے تھے، اس لیے جب آپ منبر پر تشریف فرما ہوئے تو وہ غم جدائی میں رونے لگا۔ (۲) ’’رونے لگا‘‘ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ظاہر معجزہ تھا کہ خشک تنے سے قریب الولادت اونٹنی کی آواز جیسی آواز آنے لگی۔ سب موجود لوگوں نے سنا، پھر آپ کے اس کے ساتھ پیار کرنے پر اس کا چپ ہونا دوسرا معجزہ ہے۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ دیگر روایات میں صراحت ہے کہ وہ تنا آپ کے فراق میں رویا تھا۔ (۳) حدیث سے معلوم ہوا کہ امام کو خطبۂ جمعہ کے دوران میں منبر پر کھڑا ہونا چاہیے کیونکہ آپ کی آخری سنت یہی ہے۔ باب کا مقصد بھی یہی ہے۔ (۴) منبر پر کھڑا ہونے میں امام کی فضیلت ہے، نیز وہ سب کو نظر آئے گا۔ سب اس کی آواز سنیں گے۔ دو خطبوں کے درمیان بیٹھنے میں سہولت ہوگی۔ (۵) امام اپنے پاؤں منبر پر رکھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ منبر کی پہلی سیڑھی پر، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ دوسری پر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیسری پر پاؤں رکھتے تھے۔ بعد میں احتراماً تیسری اور دوسری سیڑھی کو چھوڑ دیا گیا۔ (۱) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مسجد نبوی کے تام ستون کھجور کے تنے کے تھے۔ مذکورہ تنے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ٹیک لگاتے تھے، اس لیے جب آپ منبر پر تشریف فرما ہوئے تو وہ غم جدائی میں رونے لگا۔ (۲) ’’رونے لگا‘‘ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ظاہر معجزہ تھا کہ خشک تنے سے قریب الولادت اونٹنی کی آواز جیسی آواز آنے لگی۔ سب موجود لوگوں نے سنا، پھر آپ کے اس کے ساتھ پیار کرنے پر اس کا چپ ہونا دوسرا معجزہ ہے۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ دیگر روایات میں صراحت ہے کہ وہ تنا آپ کے فراق میں رویا تھا۔ (۳) حدیث سے معلوم ہوا کہ امام کو خطبۂ جمعہ کے دوران میں منبر پر کھڑا ہونا چاہیے کیونکہ آپ کی آخری سنت یہی ہے۔ باب کا مقصد بھی یہی ہے۔ (۴) منبر پر کھڑا ہونے میں امام کی فضیلت ہے، نیز وہ سب کو نظر آئے گا۔ سب اس کی آواز سنیں گے۔ دو خطبوں کے درمیان بیٹھنے میں سہولت ہوگی۔ (۵) امام اپنے پاؤں منبر پر رکھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ منبر کی پہلی سیڑھی پر، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ دوسری پر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیسری پر پاؤں رکھتے تھے۔ بعد میں احتراماً تیسری اور دوسری سیڑھی کو چھوڑ دیا گیا۔