سنن النسائي - حدیث 1395

كِتَابُ الْجُمْعَةِ بَاب الْأَذَانِ لِلْجُمُعَةِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى قَالَ حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ عَنْ أَبِيهِ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ كَانَ بِلَالٌ يُؤَذِّنُ إِذَا جَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَإِذَا نَزَلَ أَقَامَ ثُمَّ كَانَ كَذَلِكَ فِي زَمَنِ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1395

کتاب: جمعۃ المبارک سے متعلق احکام و مسائل جمعے کے لیے اذان حضرت سسائب بن زیدی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعے کے دن منبر پر بیٹھتے تھے تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان کہتے، پھر جب (دو خطبوں کے بعد) آپ منبر سے اترتے تو بلال اقامت کہتے۔ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں بھی ایسے ہی رہا۔
تشریح : ان دونوں روایات میں جمعے کی صرف ایک ہی اذان کو عہدِ رسالت و شیخین کا معمول بتلایا گیا ہے، اس لیے جہاں ضرورت نہ ہو، اور درحقیقت فی زمانہ غالباً اس کی ضرورت بھی نہیں ہے، وہاں اس کے مطابق ایک ہی اذان کا اہتمام کرنا چاہیے، البتہ جہاں اس کی ضرورت ہو، وہاں جمعے کی پہلی اذان دی جا سکتی ہے۔ ان دونوں روایات میں جمعے کی صرف ایک ہی اذان کو عہدِ رسالت و شیخین کا معمول بتلایا گیا ہے، اس لیے جہاں ضرورت نہ ہو، اور درحقیقت فی زمانہ غالباً اس کی ضرورت بھی نہیں ہے، وہاں اس کے مطابق ایک ہی اذان کا اہتمام کرنا چاہیے، البتہ جہاں اس کی ضرورت ہو، وہاں جمعے کی پہلی اذان دی جا سکتی ہے۔