سنن النسائي - حدیث 1388

كِتَابُ الْجُمْعَةِ بَاب التَّبْكِيرِ إِلَى الْجُمُعَةِ حسن صحيح لكن قوله : " عصفور " منكر ، و المحفوظ " دجاجة " أَخْبَرَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ اللَّيْثِ قَالَ أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ عَنْ سُمَيٍّ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ تَقْعُدُ الْمَلَائِكَةُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ عَلَى أَبْوَابِ الْمَسْجِدِ يَكْتُبُونَ النَّاسَ عَلَى مَنَازِلِهِمْ فَالنَّاسُ فِيهِ كَرَجُلٍ قَدَّمَ بَدَنَةً وَكَرَجُلٍ قَدَّمَ بَقَرَةً وَكَرَجُلٍ قَدَّمَ شَاةً وَكَرَجُلٍ قَدَّمَ دَجَاجَةً وَكَرَجُلٍ قَدَّمَ عُصْفُورًا وَكَرَجُلٍ قَدَّمَ بَيْضَةً

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1388

کتاب: جمعۃ المبارک سے متعلق احکام و مسائل جمعے کےلیے جلدی جانا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جمعۃ المبارک کے دن فرشتے مسجد کے دروازوں پر بیٹھ جاتے ہیں اور لوگوں کے نام ان کے آنے کی ترتیب کے مطابق لکھتے ہیں۔ ان میں سے کوئی تو اس آدمی کی طرحہوں گے جس نے اعلیٰ درجے کا اونٹ صدقہ کیا۔ اور کچھ اس آدمی کی طرح جس نے کم درجے کا اونٹ صدقہ کیا۔ کچھ اس آدمی کی طرح جس نے اعلیٰ درجے کی گائے صدقہ کی اور کچھ اس کی طرح جس نے کم درجے کی گائے صدقہ کی۔ کچھ اس آدمی کی طرح جس نے اعلیٰ درجے کی بکری صدقہ کی، کچھ اس آدمی کی طرح جس نے کم درجے کی بکری صدقہ کی۔ کچھ اس آدمی کی طرح جس نے بہترین مرغی صدقہ کی اور کچھ اس آدمی کی طرح جس نے کم درجے کی مرغی صدقہ کی۔ کچھ اس آدمی کی طرح جس نے قیمتی چڑیا صدقہ کی اور کچھ اس آدمی کی طرح جس نے عام چڑیا صدقہ کی۔ کچھ اس آدمی کی طرح جس نے بہترین انڈہ صدقہ کیا اور کچھ اس آدمی کی طرح جس نے عام انڈہ صدقہ کیا۔
تشریح : (۱) حدیث کا مقصد یہ ہے کہ آنے والوں کے اجروں میں فرق اوقات و ساعات کے لحاظ سے ہے، یعنی اونٹ کے ثواب کے لیے ایک وقت مقرر ہے۔ اس دوران میں جتنے لوگ بھی آئیں گے سب کو اونٹ کا ثواب ملے گا، البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ اس وقت کے دوران میں بھی پہلے آنے والے اعلیٰ اونٹ کے صدقے کے ثواب کے مستحق قرار پائیں اور آخر میں آنے والے ادنیٰ اونٹ کے۔ درمیان میں آنے والے درمیانے درجے کے اونٹ کا۔ اسی طرح باقی جانوروں کا حساب ہے۔ جوں جوں تاخیر ہوتی جائے گی، ثواب کم ہوتا جائے گا۔ واللہ أعلم۔ (۲) مذکورہ روایت کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین اس کی بابت لکھتے ہیں کہ اس میں [عصفور] (چڑیا کا ذکر) منکر ہے۔ محفوظ [دجاجۃ] (مرغی) کا لفظ ہے۔ باقی روایت قابل حجت ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے عصفور کو منکر اور دجاجہ کے لفظ کو محفوظ قرار دیتے ہئے باقی روایت کو حسن صحیح کہا ہے۔ بنابریں دلائل کی رو سے یہی بات راجح معلوم ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (صحیح سنن النسائي للألباني، رقم: ۱۳۸۶، و ذخیرۃ العقبی شرح سنن النسائي: ۱۶۴-۱۶۲/۱۶) (۱) حدیث کا مقصد یہ ہے کہ آنے والوں کے اجروں میں فرق اوقات و ساعات کے لحاظ سے ہے، یعنی اونٹ کے ثواب کے لیے ایک وقت مقرر ہے۔ اس دوران میں جتنے لوگ بھی آئیں گے سب کو اونٹ کا ثواب ملے گا، البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ اس وقت کے دوران میں بھی پہلے آنے والے اعلیٰ اونٹ کے صدقے کے ثواب کے مستحق قرار پائیں اور آخر میں آنے والے ادنیٰ اونٹ کے۔ درمیان میں آنے والے درمیانے درجے کے اونٹ کا۔ اسی طرح باقی جانوروں کا حساب ہے۔ جوں جوں تاخیر ہوتی جائے گی، ثواب کم ہوتا جائے گا۔ واللہ أعلم۔ (۲) مذکورہ روایت کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین اس کی بابت لکھتے ہیں کہ اس میں [عصفور] (چڑیا کا ذکر) منکر ہے۔ محفوظ [دجاجۃ] (مرغی) کا لفظ ہے۔ باقی روایت قابل حجت ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے عصفور کو منکر اور دجاجہ کے لفظ کو محفوظ قرار دیتے ہئے باقی روایت کو حسن صحیح کہا ہے۔ بنابریں دلائل کی رو سے یہی بات راجح معلوم ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (صحیح سنن النسائي للألباني، رقم: ۱۳۸۶، و ذخیرۃ العقبی شرح سنن النسائي: ۱۶۴-۱۶۲/۱۶)