سنن النسائي - حدیث 1386

كِتَابُ الْجُمْعَةِ بَاب التَّبْكِيرِ إِلَى الْجُمُعَةِ صحيح أَخْبَرَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ نَصْرٍ عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى قَالَ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ الْأَغَرِّ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا كَانَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ قَعَدَتْ الْمَلَائِكَةُ عَلَى أَبْوَابِ الْمَسْجِدِ فَكَتَبُوا مَنْ جَاءَ إِلَى الْجُمُعَةِ فَإِذَا خَرَجَ الْإِمَامُ طَوَتْ الْمَلَائِكَةُ الصُّحُفَ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُهَجِّرُ إِلَى الْجُمُعَةِ كَالْمُهْدِي بَدَنَةً ثُمَّ كَالْمُهْدِي بَقَرَةً ثُمَّ كَالْمُهْدِي شَاةً ثُمَّ كَالْمُهْدِي بَطَّةً ثُمَّ كَالْمُهْدِي دَجَاجَةً ثُمَّ كَالْمُهْدِي بَيْضَةً

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1386

کتاب: جمعۃ المبارک سے متعلق احکام و مسائل جمعے کےلیے جلدی جانا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب جمعے کا دن ہوتا ہے تو فرشتے مسجد کے دروازو پر بیٹھ جاتے ہیں اور جمعۃ المبارک کے لیے آنے والوں کے نام لکھتے ہیں۔ جب امام خطبے کے لیے نکلتا ہے تو فرشتے اپنے رجسٹر بند کر لیتے ہیں۔‘‘ (راویٔ حدیث) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جمعے کے لیے سب سے پہلے آنے والا (عبے کی طرف) قربانی کے لیے اونٹ بھیجنے والے کی طرح ہے۔ پھر اس کے بعد آنے والا (کعبے کی طرف) قربانی کے لیے گائے بھیجنے والے کی طرح ہے۔ پھر اس کے بعد آنے والا (کعبے کی طرف) قربانی کے لیے بکری بھیجنے والے کی طرح ہے۔ پھر اس کے بعد آنے والا (کعبے کی طرف) قربانی کے لیے بطخ بھیجنے والے کی طرح ہے۔ پھر اس کے بعد آنے والا (کعبے کی طرف) قربانی کے لیے مرغی بھیجنے والے کی طرح ہے۔ پھر اس کے بعد آنے والا (کعبے کی طرف) قربانی کے لیے انڈا بھیجنے والے کی طرح ہے۔‘‘
تشریح : (۱)’’فرشتے‘‘ یہ مخصوص فرشتے ہیں جو صرف جمعے سے قبل آنے والوں کے نام اور ثواب لکھنے کے لیے مقرر ہیں۔ (عموماً اعمال لکھنے والے فرشتے تو ہر وقت لکھتے رہتے ہیں۔) پھر یہ خطبہ بھی سنتے ہیں۔ اس سے جمعۃ المبارک کی عظمت ظاہر ہوتی ہے، اسی لیے اس دن کو قرآن مجید میں ’’شاہد‘‘ کہا گیا ہے اور اگر اس سے عام ’’کراما کاتبین‘‘ مراد ہوں تو پھر جمعۃ المبارک کے لیے خطبے سے پہلے آنے والوں کے لیے مخصوص رجسٹر ہوں گے جنھیں خطبہ شروع ہونے سے قبل بند کر دیا جاتا ہے۔ اس میں پہلے آنے والوں کی عظیم فضیلت ہے کہ ان کی حاضری کے لیے فرشتے دروازوں پر آکر بیٹھتے ہیں۔ ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشآء۔ (۲) ’’سب سے پہلے آنے والا‘‘ بعض علماء کا خیال ہے کہ فرشتوں نے خطبے سے پہلے کچھ اوقات مقرر کر رکھے ہوں گے۔ ان اوقات کے لحاظ سے لوگوں کے درجات بنتے ہوں گے ورنہ ظاہراً تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے آنے والے صرف چھ سات افراد کے نام لکھے جاتے ہیں مگر یہ درست نہیں کیونکہ ممکن ہے بیک وقت کئی افراد داخل ہوں، لہٰذا اوقات کا تقرر ہوگا مگر ان اوقات کی تفصیل کسی حدیث میں نہیں آئی۔ یہی وجہ ہے کہ علماء کے مابین اس بارے میں اختلاف ہے۔ جمعے کے لیے جلدی نکلنا بالاتفاق مستحب ہے لیکن اختلاف صرف اس بات میں ہے کہ حدیث میں وارد پانچ گھڑیوں سے مراد کیا ہے؟ کیا پانچ یا چھ گھڑیوں سے مقصود صرف وقت کے چحند اجزاء ہیں یا وہ معروف گھڑیاں ہیں جن میں دن رات ۲۴ گھنٹوں میں تقسیم ہوتے ہیں؟ جمہور علماء و فقہاء اس سے مراد معروف زمانی ساعات (گھنٹے) لیتے ہیں۔ امام شافعی، امام احمد، سفیان ثوری اور امام ابوحنیفہ رحمہم اللہ وغیرہ کی یہی رائے ہے۔ ایک دن میں بارہ گھڑیاں ہوتی ہیں جیسا کہ اس کی تائید حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ہوتی ہے کہ جمعے کے دن کی بارہ گھڑیاں ہتوی ہیں۔ اس کی سند صحیح ہے۔ (سنن أبي داود، لاصلاۃ، حدیث: ۱۰۴۸، و صحیح سنن أبي داود (مفصل) للألباني، حدیث: ۹۶۳) اس لحاظ سے ان کے ہاں سورج کے بلند ہونے سے پہلی گھڑی کا آغاز ہو جاتا ہے۔ اس طرح زوال شمس تک، وقت کے اس دورانیے کو پانچ گھڑیوں میں تقسیم کر لیا جائے، خواہ پہلی گھڑی گھنٹے پر مشتمل ہو یا سوایا ڈیڑھ گھنٹے پر کیونکہ گرمی سردی کے اعتبار سے وقت کے لحاظ سے گھڑیوں میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے لیکن دن کبھی بارہ گھڑیوں سے کم نہیں ہوتا۔ اس طرح پہلی گھڑی میں آنے والے افراد، خواہ تعداد میں زیادہ ہی ہوں، وہ اونٹ کی قربانی کا ثواب پائیں گے۔ اسی طرح ترتیب وار دیگر گھڑیوں میں آنے والے حضرات بھی اسی حساب سے ثواب میں شریک ہوں گے۔ ’’الساعۃ‘‘ کے عرف میں بھی یہی معنی متبادر ہیں۔ دوسرا موقف امام مالک رحمہ اللہ اور بعض شوافع کا ہے۔ ان کے نزدیک احادیث میں وارد ساعات سے مراد معروف گھڑیاں نہیں بلکہ زوال کے بعد چند لحظات یا لمحات ہیں، یعنی زوال کے بعد چھٹی گھڑیکے یہ چند اجزاء یا لمحات ہوتے ہیں جن میں فرشتے آنے والوں کے ترتیب وار نام لکھتے ہیں۔ اس دعوے کی ان کے پاس چند دلیلیں ہیں: پہلی دلیل: حدیث میں لفظ [راح] (فعل ماضی) استعمال ہوا ہے جس کے معنی بعداز زوال جانے یا روانہ ہونے کے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ بعد از زوال جلدی نکلنے کی ترغیب ہے نہ کہ دن کے آغاز میں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ لفظ راح صرف بعد از زوال جانے پر نہیں بولا جاتا، بلکہ مطلق جانے پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے، خواہ جانا کسی وقت بھی ہو، یہ اہل حجاز کی لغت ہے، جیسا کہ امام زہری رحمہ اللہ نے کہا ہے، لہٰذا سفر دن کے آغازم یں یا آخر میں یا رات کے وقت ہو، اس پر یہ لفظ بولا جاتا ہے، اس کی بعد از زوال وقت کے ساتھ تخصیص درست نہیں۔ دوسری دلیل: حدیث میں وارد لفظ [الھجر] ہے، نیز اس حدیث میں بجائے ساعات کے لفظ [ثم] استعمال ہوا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ لوگ ایک دوسرے کے بعد آئیں، اور اس میں گھڑیو کا ذکر نہیں ہے۔ اور [المھجر، تھجیر] سے مشتق ہے جس کے معنی عین دوپہر کا وقت ہیں جسے عربی میں الھاجرۃ کہتے ہیں۔ اس سے بھی پتہ چلا کہ آغاز دن مراد نہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جن روایات میں ساعات کا ذکر ہے، وہ مفصل ہیں اور لفظ [ثم] کے ساتھ منقول حدیث مبہم ہے۔ قاعدے کی رو سے مجمل کو مفصل پر محمول کیا جاتا ہے، یعنی جو وضاحت مفصل میں ہوتی ہے، اسے ہی لینا ضروری ہے، اس لیے الساعات کی تصریح سے منقول روایات مقدم ہیں، نیز سب طرق و روایات میں صرف لفظ [الھجر] ہی نہیں آتا بلکہ ابن حجر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ بعض میں لفظ [غدا] اور بعض میں [المتعجل] ’’جلدی کرنے والے‘‘ کے الفاظ وغیرہ بھی ہیں۔ اس سے لفظ [المھجر] کے معنی متعین ہو جاتے ہیں، نیز لغت میں یہ لفظ تبکیر و تعجیل کے معنی میں بھی آتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اگرچہ اس کے معنی میں عین دوپہر یا شدید دھوپ میں نکلنے کے بھی آتے ہیں لیکن لغت کی روشنی میں تبکیر و تعجیل کے معنی سے بھی مفر نہیں، بلکہ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو یہاں اسی مؤخر الذکرمعنی میں استعمال ہوا ہے۔ تیسری دلیل: لفظ [الساعۃ] معروف گھنٹے کے معنی میں نہیں بلکہ زمانے یا وقت کے ایک جز یا حصے پر بولا جاتا ہے۔ اردو میں اس کے معنی ’’گھڑی‘‘ کے کیے جاتے ہیں، یہ عام ہے، خواہ تھوڑے وقت کو محیط ہو یا زیادہ کو، اسی لیے اس کے معنی لمحے یا لحظات کیے جاتے ہیں۔ اس کا جواب تین طرح دیا جا سکتا ہے: (۱) شرعاً ایک دن کے بارہ گھڑیوں میں تقسیم ہونے کا ذکر ملتا ہے جیسا کہ سنن ابی داود کی حدیث میں ہے۔ زثر بحث مسئلے میں اس سے تائید لی جا سکتی ہے۔ (۲) عرف میں بھی الساعۃ کے متبادر معنی یہی ہیں جو جمہرو مراد لیتے ہیں۔ (۳) اگر الساعات سے مراد چھٹی گھڑی کے چند لمحات یا لحظے ہی ہوتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پانچ گھڑیوں کے ذکر کے کیا معنی ہیں؟ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس سے مراد وہی پانچ گھڑیاں ہیں جو بارہ گھڑیوں کا حصہ ہیں۔ جن پر، گرمی ہو یا سردی، ایک دن محیط ہوتا ہے۔ چوتھی دلیل: اگر احادیث میں وارد ساعات سے مراد چند لمحے یا لحظات مراد نہ ہوں تو اس سے ان گھڑیوں کی طوالت لازم آتی ہے، یعنی ان گھڑیوں کا دورانیہ لمبا ٹھہرتا ہے جس سے، سابق اور لاحق، یعنی پہلے اور بعد میں آنے والوں کا فرق ختم ہو جاتا ہے، اور ان گھڑیوں میں یکے بعد دیگرے آنے والوں کی فضیلت میں برابری اور یکسانیت لازم آتی ہے، مثلاً: پہلی گھڑی اگر ایک یا سوا گھنٹے پر مشتمل ہو تو ممکن ہے اس گھڑی میں وہ چار یا آٹھ دس آدمی یکے بعد دیگرے آئیں۔ اسی طرح باقی گھڑیوں میں بھی یہ ہوتا ہے یا اس کا قوی امکان ہے۔ کیا اس گھڑی میں پنے والے ان تمام افراد کو اونٹ کی قربانی کا ثواب ملتا ہے یا صرف ان کو جو ان میں سے پہلے آئے اور بس؟ اسی اعتراض سے بچنے کے یے امام مالک رحمہ اللہ وغیرہ ان سے مراد چند لمحات یا لحظات لیتے ہیں۔ اس اشکال کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اگرچہ پہلی گھڑی میں یکے بعد دیگرے آنے والے تمام افراد نفس اونٹ کی قربانی کا ثواب تو پاتے ہیں جیسا کہ حدیث میں ہے، لیکن اس سے ہر لحاظ سے اونٹ کی قربانی میں تمام افراد کی برابری اور یکسانیت لازم نہیں آتی، وہ اس طرح کہ جو سب سے پہلے آئے اسے خوب موٹے تازے فربے اونٹ کی قربانی کا ثواب ملتا ہو، جو اس کے بعد آئے اسے اس سے کم تر اور جو اس کے بعد آئے اسے اس سے کمزور یا کم تر اونٹ کی قربانی کا ثواب ملتا ہو، یعنی مذکورہ تفاوت اور فرق یا اختلاف مراتب نفس اونٹ وغیرہ کی ذات کی بنا پر تو نہ ہو بلکہ ان کی صفات میں ہو اور برابری صرف اونٹ وغیرہ کی ذات کی حد تک ہو جیسا کہ ذکر ہوا، اور یہی بات درست ہے۔ حدیث کو اس طرح سمجھنے سے اشکال و اعتراض رفع ہو جاتا ہے۔ واللہ أعلم۔ پانچویں دلیل: اہل مدینہ کا عمل اس کے برعکس تھا۔ وہ آغاز دن ہی سے نہیں آتے تھے بلکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کا بھی یہ عمل نہ تھا، اس لیے اگر حدیث میں وارد لفظ الساعات سے جمہور والی گھڑیاں مراد لی جائیں تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم نیکی کی شدید رغبت و حرص کے باوجود اول النہار حاضر نہ ہوتے تھے۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں ساعات سے مراد زوال کے بعد چھٹی گھڑی کے چند مختصر لمحے یا لحظے ہی ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اہل مدینہ کل امت نہیں کہ ان کا اتفاق یا عدم عمل قابل حجت اور اجماع کی حیثیت ا حامل ہو۔ پھر اول النہار مسجد کی طرف جانا بھی تو کوئی واجبی عمل نہیں، بلکہ بعض دیگر امور دینی یا دیگر مصالح اس عمل سے کہیں زیادہ اہمیت و فضیلت کے حامل ہوتے ہیں، اس لیے اسے ترک کیا جا سکتا ہے اور یہ جائز ہے۔ اس سے یہ نہیں نکلتا کہ اس درجہ تعجیل ان کے ہاں مکروہ یا ناجائز تھی۔ یقیناً جو آدمی نماز فجر پڑھ کر اسی جگہ ذکراذکار میں مشغول رہے اور سورج طلوع ہونے کے بعد دو رکعت پڑھ لے، وہ اس آدمی سے جو صرف اشراق ہی پڑھتا ہے، کہیں زیادہ فضیلت اور ثواب کا حامل ہے۔ اسی طح وہ آدمی، جو نماز فجر کی ادائیگی کے بعد غسل وغیرہ کرے اور تیار ہو، اور اشراق پڑھ کر نماز جمعہ کے انتظار میں بیٹھا رہے، یقیناً اس شخص کی نسبت یہ کہیں زیادہ فضیلت پاتا ہے جو خطیب کے آنے سے صرف چند لمحے قبل مسجد میں پہنچتا ہے، جبکہ احادیث کی روشنی میں اس طرح انتظار کرنے والے کو بدستور نماز کی حالت میں شمار کیا گیا ہے۔ بلاشبہ ایسے آدمی کی فضیلت کا کسی کو انکار نہیں اور نہ ہونا چاہیے۔ اس قسم کے اعمال کی مشرعیت عمومی دلائل و احادیث سے اخذ ہوتی ہے۔ کی صحابی یا تابعی کے عدم عمل یا ان کے متعلق عدم نقل کی بنا پر اسے رد نہیں کیا جا سکتا۔ واللہ أعلم۔ چھٹی دلیل: اگر حدیث میں موجود الساعات کو فلکی ساعات، یعنی گھنٹوں کے معنی میں لیا جائے تو اس صورت میں خطیب کا قبل از زوال نکلنا لازم آتا ہے۔ وہ اس طرح کہ آفتاب کے ےبلند ہونے سے امام کے خروج سے قبل تک، وقت کے دورانیے ککو پانچ گھڑیوں میں تقسیم کیا جائے تو پانچویں گھڑی کے بعد خروجِ امام کا ذکر ہے جیسا کہ حدیث میں آتا ہے۔ یہ چھٹی گھڑی کا ابتدائی اور قبل از زوال کا وقت ہوتا ہے۔ اور جمہور کے نزدیک قبل از زوال نماز جمعہ درست نہیں۔ لیکن جن کے نزدیک یہ جائز ہے ان کے لیے یہ حدیث قابل اعتراض نہیں بلکہ ان کے حق میں ہے۔ حافظ ابن حجر رمہ اللہ اس اعتراض کا جدواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں: اس حدیث کے کسی طریق میں امام کے اول النہار نکلنے کا ذکر نہیں ہے ہوسکتا ہے پہلی گھڑی نہانے اور جمعے کی تیاری وغیرہ کے لیے ہو۔ اور مسجد میں آنا دوسری گھڑی کے آغاز میں ہو۔ اس طرح دن کے اعتبار سے یہ دوسری گھڑی ہوگی اور جانے کے اعتبار سے پہلی۔ بنا بریں پانچویں گھڑی کے پخری لحظے زوال کے ابتدائی لمحات ہوں گے۔ (فتح الباري: ۳۶۸/۲) الغرض مذکورہ معروضات سے واضح ہوتا ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ کا موقف مرجوح ہے۔ جمہور علماء ک دلائل قوی اور قرین قیاس ہیں۔ اگرچہ قرآن و حدیث کی روشنی میں حدیث میں منقول ساعات کی واضح طور پر تحدید مشکل ہے لیکن فریق مخالف کے مقابلے میں جمہور کی رائے ہی مضبوط ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ کی تحقیق بھی یہی ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے: (إحکام الأحکام شرح عمدۃ الأحکام لابن دقیق العبد، مع حاشیۃ العدۃ: ۵۳۱-۵۲۲/۲، وزاد المعاد: ۴۰۷-۳۹۹/۱ بتحقیق شعیب الأرناؤط، و فتح الباري: ۳۷۰-۳۶۶/۲، رقم الحدیث: ۸۸۱، و مرعاۃ المفاتیح: ۲۹۵-۲۹۳/۲، طبعہ أولی، و موسوعہ فقھیہ از حمین بن عودہ: ۳۶۲/۲) (۳)رجسٹر بند ہونے کے بعد آنے والے سبقت کے ثواب سے محروم رہتے ہیں مگر انھیں جمعے کی حاضری، خطبے کے سماع، نماز میں شرکت اور ذکر و دعا وغیرہ کا ثواب ملتا ہے۔ لیکن درجات میں فرق پڑ جاتا ہے۔ (۴) ببعض لوگ اس سے حدیث سے اس بات پر استدلال کرتے ہیں کہ مرغی کی قربانی بھی جائز ہے لیکن اگر اس استدلال کو درست سمجھ لیا جائے تو پھر انڈے کی قربانی کا جواز بھی تسلیم کرنا پڑے گا، جسے یہ خود بھی تسلیم نہیں کرتے۔ بنا بری یہ استدلال درست نہیں۔ اس حدیث میں مذکورہ چیزوں کی قربانی سے مراد وہ اجر و ثواب ہے جو ان چیزوں کے صدقہ کرنے سے ملتا ہے، اسی لیے بعض لوگ [مھدی] کے معنی ہی ’’صدقہ کرنے والا‘‘ کرتے ہیں۔ بہرحال جو معنی بھی کیے جائیں، اس سے مرغی یا انڈے کی قربانی کا جواز کشید کرنا یکسر غلط ہے۔ (۵) ادنیٰ سی چیز بھی اللہ کی راہ میں دینے سے ہچکچانا نہیں چاہیے۔ اخلاص کے ساتھ دی ہوئی معمولی سی چیز بھی عنداللہ بہت زیادہ اجر و ثواب کا باعث ہے۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ن فرمایا: ’’آگ سے بچو، چاہے کھجور کے ایک ٹکڑے (کے صدقے) کےساتھ ہی۔‘‘ (صحیح البخاري، الزکاۃ، حدیث: ۱۴۱۷) (۱)’’فرشتے‘‘ یہ مخصوص فرشتے ہیں جو صرف جمعے سے قبل آنے والوں کے نام اور ثواب لکھنے کے لیے مقرر ہیں۔ (عموماً اعمال لکھنے والے فرشتے تو ہر وقت لکھتے رہتے ہیں۔) پھر یہ خطبہ بھی سنتے ہیں۔ اس سے جمعۃ المبارک کی عظمت ظاہر ہوتی ہے، اسی لیے اس دن کو قرآن مجید میں ’’شاہد‘‘ کہا گیا ہے اور اگر اس سے عام ’’کراما کاتبین‘‘ مراد ہوں تو پھر جمعۃ المبارک کے لیے خطبے سے پہلے آنے والوں کے لیے مخصوص رجسٹر ہوں گے جنھیں خطبہ شروع ہونے سے قبل بند کر دیا جاتا ہے۔ اس میں پہلے آنے والوں کی عظیم فضیلت ہے کہ ان کی حاضری کے لیے فرشتے دروازوں پر آکر بیٹھتے ہیں۔ ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشآء۔ (۲) ’’سب سے پہلے آنے والا‘‘ بعض علماء کا خیال ہے کہ فرشتوں نے خطبے سے پہلے کچھ اوقات مقرر کر رکھے ہوں گے۔ ان اوقات کے لحاظ سے لوگوں کے درجات بنتے ہوں گے ورنہ ظاہراً تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے آنے والے صرف چھ سات افراد کے نام لکھے جاتے ہیں مگر یہ درست نہیں کیونکہ ممکن ہے بیک وقت کئی افراد داخل ہوں، لہٰذا اوقات کا تقرر ہوگا مگر ان اوقات کی تفصیل کسی حدیث میں نہیں آئی۔ یہی وجہ ہے کہ علماء کے مابین اس بارے میں اختلاف ہے۔ جمعے کے لیے جلدی نکلنا بالاتفاق مستحب ہے لیکن اختلاف صرف اس بات میں ہے کہ حدیث میں وارد پانچ گھڑیوں سے مراد کیا ہے؟ کیا پانچ یا چھ گھڑیوں سے مقصود صرف وقت کے چحند اجزاء ہیں یا وہ معروف گھڑیاں ہیں جن میں دن رات ۲۴ گھنٹوں میں تقسیم ہوتے ہیں؟ جمہور علماء و فقہاء اس سے مراد معروف زمانی ساعات (گھنٹے) لیتے ہیں۔ امام شافعی، امام احمد، سفیان ثوری اور امام ابوحنیفہ رحمہم اللہ وغیرہ کی یہی رائے ہے۔ ایک دن میں بارہ گھڑیاں ہوتی ہیں جیسا کہ اس کی تائید حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ہوتی ہے کہ جمعے کے دن کی بارہ گھڑیاں ہتوی ہیں۔ اس کی سند صحیح ہے۔ (سنن أبي داود، لاصلاۃ، حدیث: ۱۰۴۸، و صحیح سنن أبي داود (مفصل) للألباني، حدیث: ۹۶۳) اس لحاظ سے ان کے ہاں سورج کے بلند ہونے سے پہلی گھڑی کا آغاز ہو جاتا ہے۔ اس طرح زوال شمس تک، وقت کے اس دورانیے کو پانچ گھڑیوں میں تقسیم کر لیا جائے، خواہ پہلی گھڑی گھنٹے پر مشتمل ہو یا سوایا ڈیڑھ گھنٹے پر کیونکہ گرمی سردی کے اعتبار سے وقت کے لحاظ سے گھڑیوں میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے لیکن دن کبھی بارہ گھڑیوں سے کم نہیں ہوتا۔ اس طرح پہلی گھڑی میں آنے والے افراد، خواہ تعداد میں زیادہ ہی ہوں، وہ اونٹ کی قربانی کا ثواب پائیں گے۔ اسی طرح ترتیب وار دیگر گھڑیوں میں آنے والے حضرات بھی اسی حساب سے ثواب میں شریک ہوں گے۔ ’’الساعۃ‘‘ کے عرف میں بھی یہی معنی متبادر ہیں۔ دوسرا موقف امام مالک رحمہ اللہ اور بعض شوافع کا ہے۔ ان کے نزدیک احادیث میں وارد ساعات سے مراد معروف گھڑیاں نہیں بلکہ زوال کے بعد چند لحظات یا لمحات ہیں، یعنی زوال کے بعد چھٹی گھڑیکے یہ چند اجزاء یا لمحات ہوتے ہیں جن میں فرشتے آنے والوں کے ترتیب وار نام لکھتے ہیں۔ اس دعوے کی ان کے پاس چند دلیلیں ہیں: پہلی دلیل: حدیث میں لفظ [راح] (فعل ماضی) استعمال ہوا ہے جس کے معنی بعداز زوال جانے یا روانہ ہونے کے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ بعد از زوال جلدی نکلنے کی ترغیب ہے نہ کہ دن کے آغاز میں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ لفظ راح صرف بعد از زوال جانے پر نہیں بولا جاتا، بلکہ مطلق جانے پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے، خواہ جانا کسی وقت بھی ہو، یہ اہل حجاز کی لغت ہے، جیسا کہ امام زہری رحمہ اللہ نے کہا ہے، لہٰذا سفر دن کے آغازم یں یا آخر میں یا رات کے وقت ہو، اس پر یہ لفظ بولا جاتا ہے، اس کی بعد از زوال وقت کے ساتھ تخصیص درست نہیں۔ دوسری دلیل: حدیث میں وارد لفظ [الھجر] ہے، نیز اس حدیث میں بجائے ساعات کے لفظ [ثم] استعمال ہوا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ لوگ ایک دوسرے کے بعد آئیں، اور اس میں گھڑیو کا ذکر نہیں ہے۔ اور [المھجر، تھجیر] سے مشتق ہے جس کے معنی عین دوپہر کا وقت ہیں جسے عربی میں الھاجرۃ کہتے ہیں۔ اس سے بھی پتہ چلا کہ آغاز دن مراد نہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جن روایات میں ساعات کا ذکر ہے، وہ مفصل ہیں اور لفظ [ثم] کے ساتھ منقول حدیث مبہم ہے۔ قاعدے کی رو سے مجمل کو مفصل پر محمول کیا جاتا ہے، یعنی جو وضاحت مفصل میں ہوتی ہے، اسے ہی لینا ضروری ہے، اس لیے الساعات کی تصریح سے منقول روایات مقدم ہیں، نیز سب طرق و روایات میں صرف لفظ [الھجر] ہی نہیں آتا بلکہ ابن حجر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ بعض میں لفظ [غدا] اور بعض میں [المتعجل] ’’جلدی کرنے والے‘‘ کے الفاظ وغیرہ بھی ہیں۔ اس سے لفظ [المھجر] کے معنی متعین ہو جاتے ہیں، نیز لغت میں یہ لفظ تبکیر و تعجیل کے معنی میں بھی آتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اگرچہ اس کے معنی میں عین دوپہر یا شدید دھوپ میں نکلنے کے بھی آتے ہیں لیکن لغت کی روشنی میں تبکیر و تعجیل کے معنی سے بھی مفر نہیں، بلکہ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو یہاں اسی مؤخر الذکرمعنی میں استعمال ہوا ہے۔ تیسری دلیل: لفظ [الساعۃ] معروف گھنٹے کے معنی میں نہیں بلکہ زمانے یا وقت کے ایک جز یا حصے پر بولا جاتا ہے۔ اردو میں اس کے معنی ’’گھڑی‘‘ کے کیے جاتے ہیں، یہ عام ہے، خواہ تھوڑے وقت کو محیط ہو یا زیادہ کو، اسی لیے اس کے معنی لمحے یا لحظات کیے جاتے ہیں۔ اس کا جواب تین طرح دیا جا سکتا ہے: (۱) شرعاً ایک دن کے بارہ گھڑیوں میں تقسیم ہونے کا ذکر ملتا ہے جیسا کہ سنن ابی داود کی حدیث میں ہے۔ زثر بحث مسئلے میں اس سے تائید لی جا سکتی ہے۔ (۲) عرف میں بھی الساعۃ کے متبادر معنی یہی ہیں جو جمہرو مراد لیتے ہیں۔ (۳) اگر الساعات سے مراد چھٹی گھڑی کے چند لمحات یا لحظے ہی ہوتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پانچ گھڑیوں کے ذکر کے کیا معنی ہیں؟ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس سے مراد وہی پانچ گھڑیاں ہیں جو بارہ گھڑیوں کا حصہ ہیں۔ جن پر، گرمی ہو یا سردی، ایک دن محیط ہوتا ہے۔ چوتھی دلیل: اگر احادیث میں وارد ساعات سے مراد چند لمحے یا لحظات مراد نہ ہوں تو اس سے ان گھڑیوں کی طوالت لازم آتی ہے، یعنی ان گھڑیوں کا دورانیہ لمبا ٹھہرتا ہے جس سے، سابق اور لاحق، یعنی پہلے اور بعد میں آنے والوں کا فرق ختم ہو جاتا ہے، اور ان گھڑیوں میں یکے بعد دیگرے آنے والوں کی فضیلت میں برابری اور یکسانیت لازم آتی ہے، مثلاً: پہلی گھڑی اگر ایک یا سوا گھنٹے پر مشتمل ہو تو ممکن ہے اس گھڑی میں وہ چار یا آٹھ دس آدمی یکے بعد دیگرے آئیں۔ اسی طرح باقی گھڑیوں میں بھی یہ ہوتا ہے یا اس کا قوی امکان ہے۔ کیا اس گھڑی میں پنے والے ان تمام افراد کو اونٹ کی قربانی کا ثواب ملتا ہے یا صرف ان کو جو ان میں سے پہلے آئے اور بس؟ اسی اعتراض سے بچنے کے یے امام مالک رحمہ اللہ وغیرہ ان سے مراد چند لمحات یا لحظات لیتے ہیں۔ اس اشکال کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اگرچہ پہلی گھڑی میں یکے بعد دیگرے آنے والے تمام افراد نفس اونٹ کی قربانی کا ثواب تو پاتے ہیں جیسا کہ حدیث میں ہے، لیکن اس سے ہر لحاظ سے اونٹ کی قربانی میں تمام افراد کی برابری اور یکسانیت لازم نہیں آتی، وہ اس طرح کہ جو سب سے پہلے آئے اسے خوب موٹے تازے فربے اونٹ کی قربانی کا ثواب ملتا ہو، جو اس کے بعد آئے اسے اس سے کم تر اور جو اس کے بعد آئے اسے اس سے کمزور یا کم تر اونٹ کی قربانی کا ثواب ملتا ہو، یعنی مذکورہ تفاوت اور فرق یا اختلاف مراتب نفس اونٹ وغیرہ کی ذات کی بنا پر تو نہ ہو بلکہ ان کی صفات میں ہو اور برابری صرف اونٹ وغیرہ کی ذات کی حد تک ہو جیسا کہ ذکر ہوا، اور یہی بات درست ہے۔ حدیث کو اس طرح سمجھنے سے اشکال و اعتراض رفع ہو جاتا ہے۔ واللہ أعلم۔ پانچویں دلیل: اہل مدینہ کا عمل اس کے برعکس تھا۔ وہ آغاز دن ہی سے نہیں آتے تھے بلکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کا بھی یہ عمل نہ تھا، اس لیے اگر حدیث میں وارد لفظ الساعات سے جمہور والی گھڑیاں مراد لی جائیں تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم نیکی کی شدید رغبت و حرص کے باوجود اول النہار حاضر نہ ہوتے تھے۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں ساعات سے مراد زوال کے بعد چھٹی گھڑی کے چند مختصر لمحے یا لحظے ہی ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اہل مدینہ کل امت نہیں کہ ان کا اتفاق یا عدم عمل قابل حجت اور اجماع کی حیثیت ا حامل ہو۔ پھر اول النہار مسجد کی طرف جانا بھی تو کوئی واجبی عمل نہیں، بلکہ بعض دیگر امور دینی یا دیگر مصالح اس عمل سے کہیں زیادہ اہمیت و فضیلت کے حامل ہوتے ہیں، اس لیے اسے ترک کیا جا سکتا ہے اور یہ جائز ہے۔ اس سے یہ نہیں نکلتا کہ اس درجہ تعجیل ان کے ہاں مکروہ یا ناجائز تھی۔ یقیناً جو آدمی نماز فجر پڑھ کر اسی جگہ ذکراذکار میں مشغول رہے اور سورج طلوع ہونے کے بعد دو رکعت پڑھ لے، وہ اس آدمی سے جو صرف اشراق ہی پڑھتا ہے، کہیں زیادہ فضیلت اور ثواب کا حامل ہے۔ اسی طح وہ آدمی، جو نماز فجر کی ادائیگی کے بعد غسل وغیرہ کرے اور تیار ہو، اور اشراق پڑھ کر نماز جمعہ کے انتظار میں بیٹھا رہے، یقیناً اس شخص کی نسبت یہ کہیں زیادہ فضیلت پاتا ہے جو خطیب کے آنے سے صرف چند لمحے قبل مسجد میں پہنچتا ہے، جبکہ احادیث کی روشنی میں اس طرح انتظار کرنے والے کو بدستور نماز کی حالت میں شمار کیا گیا ہے۔ بلاشبہ ایسے آدمی کی فضیلت کا کسی کو انکار نہیں اور نہ ہونا چاہیے۔ اس قسم کے اعمال کی مشرعیت عمومی دلائل و احادیث سے اخذ ہوتی ہے۔ کی صحابی یا تابعی کے عدم عمل یا ان کے متعلق عدم نقل کی بنا پر اسے رد نہیں کیا جا سکتا۔ واللہ أعلم۔ چھٹی دلیل: اگر حدیث میں موجود الساعات کو فلکی ساعات، یعنی گھنٹوں کے معنی میں لیا جائے تو اس صورت میں خطیب کا قبل از زوال نکلنا لازم آتا ہے۔ وہ اس طرح کہ آفتاب کے ےبلند ہونے سے امام کے خروج سے قبل تک، وقت کے دورانیے ککو پانچ گھڑیوں میں تقسیم کیا جائے تو پانچویں گھڑی کے بعد خروجِ امام کا ذکر ہے جیسا کہ حدیث میں آتا ہے۔ یہ چھٹی گھڑی کا ابتدائی اور قبل از زوال کا وقت ہوتا ہے۔ اور جمہور کے نزدیک قبل از زوال نماز جمعہ درست نہیں۔ لیکن جن کے نزدیک یہ جائز ہے ان کے لیے یہ حدیث قابل اعتراض نہیں بلکہ ان کے حق میں ہے۔ حافظ ابن حجر رمہ اللہ اس اعتراض کا جدواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں: اس حدیث کے کسی طریق میں امام کے اول النہار نکلنے کا ذکر نہیں ہے ہوسکتا ہے پہلی گھڑی نہانے اور جمعے کی تیاری وغیرہ کے لیے ہو۔ اور مسجد میں آنا دوسری گھڑی کے آغاز میں ہو۔ اس طرح دن کے اعتبار سے یہ دوسری گھڑی ہوگی اور جانے کے اعتبار سے پہلی۔ بنا بریں پانچویں گھڑی کے پخری لحظے زوال کے ابتدائی لمحات ہوں گے۔ (فتح الباري: ۳۶۸/۲) الغرض مذکورہ معروضات سے واضح ہوتا ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ کا موقف مرجوح ہے۔ جمہور علماء ک دلائل قوی اور قرین قیاس ہیں۔ اگرچہ قرآن و حدیث کی روشنی میں حدیث میں منقول ساعات کی واضح طور پر تحدید مشکل ہے لیکن فریق مخالف کے مقابلے میں جمہور کی رائے ہی مضبوط ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ کی تحقیق بھی یہی ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے: (إحکام الأحکام شرح عمدۃ الأحکام لابن دقیق العبد، مع حاشیۃ العدۃ: ۵۳۱-۵۲۲/۲، وزاد المعاد: ۴۰۷-۳۹۹/۱ بتحقیق شعیب الأرناؤط، و فتح الباري: ۳۷۰-۳۶۶/۲، رقم الحدیث: ۸۸۱، و مرعاۃ المفاتیح: ۲۹۵-۲۹۳/۲، طبعہ أولی، و موسوعہ فقھیہ از حمین بن عودہ: ۳۶۲/۲) (۳)رجسٹر بند ہونے کے بعد آنے والے سبقت کے ثواب سے محروم رہتے ہیں مگر انھیں جمعے کی حاضری، خطبے کے سماع، نماز میں شرکت اور ذکر و دعا وغیرہ کا ثواب ملتا ہے۔ لیکن درجات میں فرق پڑ جاتا ہے۔ (۴) ببعض لوگ اس سے حدیث سے اس بات پر استدلال کرتے ہیں کہ مرغی کی قربانی بھی جائز ہے لیکن اگر اس استدلال کو درست سمجھ لیا جائے تو پھر انڈے کی قربانی کا جواز بھی تسلیم کرنا پڑے گا، جسے یہ خود بھی تسلیم نہیں کرتے۔ بنا بری یہ استدلال درست نہیں۔ اس حدیث میں مذکورہ چیزوں کی قربانی سے مراد وہ اجر و ثواب ہے جو ان چیزوں کے صدقہ کرنے سے ملتا ہے، اسی لیے بعض لوگ [مھدی] کے معنی ہی ’’صدقہ کرنے والا‘‘ کرتے ہیں۔ بہرحال جو معنی بھی کیے جائیں، اس سے مرغی یا انڈے کی قربانی کا جواز کشید کرنا یکسر غلط ہے۔ (۵) ادنیٰ سی چیز بھی اللہ کی راہ میں دینے سے ہچکچانا نہیں چاہیے۔ اخلاص کے ساتھ دی ہوئی معمولی سی چیز بھی عنداللہ بہت زیادہ اجر و ثواب کا باعث ہے۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ن فرمایا: ’’آگ سے بچو، چاہے کھجور کے ایک ٹکڑے (کے صدقے) کےساتھ ہی۔‘‘ (صحیح البخاري، الزکاۃ، حدیث: ۱۴۱۷)