سنن النسائي - حدیث 1380

كِتَابُ الْجُمْعَةِ بَاب الرُّخْصَةِ فِي تَرْكِ الْغُسْلِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ صحيح أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ عَنْ الْوَلِيدِ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْعَلَاءِ أَنَّهُ سَمِعَ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ أَنَّهُمْ ذَكَرُوا غُسْلَ يَوْمِ الْجُمُعَةِ عِنْدَ عَائِشَةَ فَقَالَتْ إِنَّمَا كَانَ النَّاسُ يَسْكُنُونَ الْعَالِيَةَ فَيَحْضُرُونَ الْجُمُعَةَ وَبِهِمْ وَسَخٌ فَإِذَا أَصَابَهُمْ الرَّوْحُ سَطَعَتْ أَرْوَاحُهُمْ فَيَتَأَذَّى بِهَا النَّاسُ فَذُكِرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَوَ لَا يَغْتَسِلُونَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1380

کتاب: جمعۃ المبارک سے متعلق احکام و مسائل جمعۃ المبارک کے دن غسل نہ کر نے کی رخصت حضرت قاسم بن محمد بن ابی بکر رمہ اللہ سے مروی ہے کہ لوگوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس غسل جمعہ کا ذکر کیا تو انھوں نے فرمایا: دراصل کچھ لوگ مدینہ منورہ کی بالائی بستیوں میں رہتے تھے (جو کئی میل دور تھیں۔) وہ جمعے کے لیے (مسجد نبوی میں) آتے تھے۔ انھیں میل کچیل لگا ہوتا۔ جب ہوا چلتی تو ان سے بدبو پھیلتی۔ دوسرے لوگ اس سے تکلیف محسوس کرتے۔ اس بات کا ذکر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ’’تم غسل کرکے نہیں آتے؟‘‘
تشریح : باب کا مقصد واضح ہے کہ غسل جمعہ مندرجہ بالا مجبوری کی بنا پر تھا۔ جمہرو کی یہ دوسری دلیل ہے کہ اگر ایسی صورت حال نہ ہو تو غسل ضروری نہیں کیونکہ وہ لوگ کئی کئی میل سے آتے تھے۔ کام کاج کرنے کیوجہ سے جسم پر میل کچیل ہتا تھا، آتے ہوئے پسینہ آ جاتا تھا، کپڑے بھی اون وغیرہ کے ہوتے تھے، رش ہو جاتا تو اس سے ناگوار بو پھیل جاتی، اس لیے غسل کا حکم دیا گیا، لیکن دلائل کی رو سے یہ دلیل بھی زیر بحث مسئلے میں فیصلہ کن نہیں، علت اور سبب کے زائل ہونے سے اصل حکم کا زائل ہونا ضروری نہیں اور نہ ہی کوئی عام قاعدہ کلیہ ہے، اگرچہ آغاز میں یہی وجہ تھی لیکن بعد ازاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اس پر برقرار رکھا اور اس کے متعلق مزید احکام صادر فرما کر اسے لازمی قرار دے دیا۔ طواف قدوم کے ابتدائی تین چکروں میں رمل کا بھی تو آغاز میں ایک سبب اور وجہ تھی لیکن زوال علت کے باوجود یہ عمل تاحال مشروع مطلوب ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے کتاب الغسل کا ابتدائیہ دیکھیے۔ باب کا مقصد واضح ہے کہ غسل جمعہ مندرجہ بالا مجبوری کی بنا پر تھا۔ جمہرو کی یہ دوسری دلیل ہے کہ اگر ایسی صورت حال نہ ہو تو غسل ضروری نہیں کیونکہ وہ لوگ کئی کئی میل سے آتے تھے۔ کام کاج کرنے کیوجہ سے جسم پر میل کچیل ہتا تھا، آتے ہوئے پسینہ آ جاتا تھا، کپڑے بھی اون وغیرہ کے ہوتے تھے، رش ہو جاتا تو اس سے ناگوار بو پھیل جاتی، اس لیے غسل کا حکم دیا گیا، لیکن دلائل کی رو سے یہ دلیل بھی زیر بحث مسئلے میں فیصلہ کن نہیں، علت اور سبب کے زائل ہونے سے اصل حکم کا زائل ہونا ضروری نہیں اور نہ ہی کوئی عام قاعدہ کلیہ ہے، اگرچہ آغاز میں یہی وجہ تھی لیکن بعد ازاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اس پر برقرار رکھا اور اس کے متعلق مزید احکام صادر فرما کر اسے لازمی قرار دے دیا۔ طواف قدوم کے ابتدائی تین چکروں میں رمل کا بھی تو آغاز میں ایک سبب اور وجہ تھی لیکن زوال علت کے باوجود یہ عمل تاحال مشروع مطلوب ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے کتاب الغسل کا ابتدائیہ دیکھیے۔