سنن النسائي - حدیث 1366

كِتَابُ السَّهْوِ بَاب الرُّخْصَةِ لِلْإِمَامِ فِي تَخَطِّي رِقَابِ النَّاسِ صحيح أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ بَكَّارٍ الْحَرَّانِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ النَّوْفَلِيِّ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ الْحَارِثِ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَصْرَ بِالْمَدِينَةِ ثُمَّ انْصَرَفَ يَتَخَطَّى رِقَابَ النَّاسِ سَرِيعًا حَتَّى تَعَجَّبَ النَّاسُ لِسُرْعَتِهِ فَتَبِعَهُ بَعْضُ أَصْحَابِهِ فَدَخَلَ عَلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ ثُمَّ خَرَجَ فَقَالَ إِنِّي ذَكَرْتُ وَأَنَا فِي الْعَصْرِ شَيْئًا مِنْ تِبْرٍ كَانَ عِنْدَنَا فَكَرِهْتُ أَنْ يَبِيتَ عِنْدَنَا فَأَمَرْتُ بِقِسْمَتِهِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1366

کتاب: نماز میں بھول جانے کے متعلق احکام و مسائل امام کےلیے لوگو ں کی گردنیں پھلانگنے کی رخصت حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں نے ایک دفعہ مدینہ منورہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عصر کی نماز پڑھی۔ نماز سے فارغ ہوت ہی آپ جلدی سے لوگوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئے گھر چلے گئے حتی کہ لوگوں نے آپ کی جلدی پر تعجب کیا۔ کچھ صحابہ آپ کے پیچھے گئے۔ آپ اپنی کسی بیوی کے گھر داخل ہوئے، پھر باہر تشریف لائے اور فرمایا: ’’مجھے عصر کی نماز کے دوران میںیاد آیا کہ کچھ سونا ہمارے گھر پڑا ہے۔ میں نے پسند نہ کیا کہ وہ رات کو ہمارے گھر رہے، اس لیے میں نے وہ تقسیم کرنے کا حکم دیا ہے۔‘‘
تشریح : (۱) اللہ! اللہ! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بے نفسی کہ اللہ کے مال کو ایک رات کے لیے بھی اپنے گھر رکھنے کو تیار نہیں۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ فجزاہ اللہ عنا خیر الجزاء۔ (۲) معلوم ہوا کہ نماز کے اندر اتفاقاً کسی خیال کا آ جانا نماز کو ختم نہیں کرتا۔ (۳) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ کی عادت مبارکہ نماز کے بعد کچھ دیر بیٹھنے ہی کی تھی ورنہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو تعجب نہ ہوتا، نیز کسی عذر کی بنا پر ایسے کرسکتے ہیں، اسے عادت نہیں بنانا چاہیے۔ (۴) امام جب کوئی خلاف معمول کام کرے تو اسے اپنے ساتھیوں کے سامنے اس کی وضاحت کر دینی چاہیے تاکہ ان کے دلوں میں شکوک و شبہات جنم نہ لیں۔ (۱) اللہ! اللہ! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بے نفسی کہ اللہ کے مال کو ایک رات کے لیے بھی اپنے گھر رکھنے کو تیار نہیں۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ فجزاہ اللہ عنا خیر الجزاء۔ (۲) معلوم ہوا کہ نماز کے اندر اتفاقاً کسی خیال کا آ جانا نماز کو ختم نہیں کرتا۔ (۳) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ کی عادت مبارکہ نماز کے بعد کچھ دیر بیٹھنے ہی کی تھی ورنہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو تعجب نہ ہوتا، نیز کسی عذر کی بنا پر ایسے کرسکتے ہیں، اسے عادت نہیں بنانا چاہیے۔ (۴) امام جب کوئی خلاف معمول کام کرے تو اسے اپنے ساتھیوں کے سامنے اس کی وضاحت کر دینی چاہیے تاکہ ان کے دلوں میں شکوک و شبہات جنم نہ لیں۔