سنن النسائي - حدیث 1365

كِتَابُ السَّهْوِ بَاب ثَوَابِ مَنْ صَلَّى مَعَ الْإِمَامِ حَتَّى يَنْصَرِفَ صحيح أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ قَالَ حَدَّثَنَا بِشْرٌ وَهُوَ ابْنُ الْمُفَضَّلِ قَالَ حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ صُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَمَضَانَ فَلَمْ يَقُمْ بِنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَقِيَ سَبْعٌ مِنْ الشَّهْرِ فَقَامَ بِنَا حَتَّى ذَهَبَ نَحْوٌ مِنْ ثُلُثِ اللَّيْلِ ثُمَّ كَانَتْ سَادِسَةٌ فَلَمْ يَقُمْ بِنَا فَلَمَّا كَانَتْ الْخَامِسَةُ قَامَ بِنَا حَتَّى ذَهَبَ نَحْوٌ مِنْ شَطْرِ اللَّيْلِ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ نَفَلْتَنَا قِيَامَ هَذِهِ اللَّيْلَةِ قَالَ إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا صَلَّى مَعَ الْإِمَامِ حَتَّى يَنْصَرِفَ حُسِبَ لَهُ قِيَامُ لَيْلَةٍ قَالَ ثُمَّ كَانَتْ الرَّابِعَةُ فَلَمْ يَقُمْ بِنَا فَلَمَّا بَقِيَ ثُلُثٌ مِنْ الشَّهْرِ أَرْسَلَ إِلَى بَنَاتِهِ وَنِسَائِهِ وَحَشَدَ النَّاسَ فَقَامَ بِنَا حَتَّى خَشِينَا أَنْ يَفُوتَنَا الْفَلَاحُ ثُمَّ لَمْ يَقُمْ بِنَا شَيْئًا مِنْ الشَّهْرِ قَالَ دَاوُدُ قُلْتُ مَا الْفَلَاحُ قَالَ السُّحُورُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1365

کتاب: نماز میں بھول جانے کے متعلق احکام و مسائل اس شخص کا ثواب جو امام کے ساتھ نماز پڑھے اور اس کےاٹھنے تک ساتھ ہی رہے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان المبارک کے روزے رکھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں رات کو (تراویح کی) نماز پڑھائی حتی کہ رات کا تقریباً تیرسا حصہ گزر گیا۔ پھر چوبیسویں رات ہوئی تو ہمیں نماز نہیں پڑھائی۔ جب پچیسویں رات ہوئی تو پھر ہمیں نماز پڑھائی حتی کہ تقریباً نصف رات گزر گئی۔ ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اگر آپ ساری رات ہمیں نفل نماز پڑھاتے رہتے تو کیا ہی خوب ہوتا۔ آپ نے فرمایا: ’’جب کوئی شخص امام کے ساتھ نماز پڑھے اور امام کے واپس جانے تک ساتھ رہے تو اس کےلیے پوری رات کا قیام شمار کیا جاتا ہے۔‘‘ پھر چھبیسویں رات ہوئی تو آپ نے ہمیں نفل نماز نہ پڑھائی۔ جب ماہ مقدس کے تین دن باقی رہ گئے (یعنی ستائیسویں رات کو) تو آپ نے اپنی بیٹیوں اور بیویوں کو بھی بلابھیجا اور بہت لوگ جمع ہوگئے تو آپ نے ہمیں نفل نماز پڑھائی حتی کہ ہمیں خطرہ محسوس ہوا کہ ’’فلاح‘‘ رہ جائے گی۔ پھر اس کے بعد اس ماہ مقدس کی کسی رات کو ہمیں نفل نماز (تراویح) نہیں پڑھائی۔ (راویٔ حدیث) داود (بن ابو ہند) نے کہا: میں نے (اپنے استاد ولید سے) پوچھا: ’’فلاح‘‘ کیا ہے؟ انھوں نے کہا: سحری ہے۔
تشریح : (۱) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بعد کی راتوں میں تراویح نہ پڑھانا فرضیت کے ڈر سے تھا جیسا کہ آپ نے خود فرمایا ہے۔ آپ کی وفات کے بعد یہ ڈر نہ رہا، لہٰذا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مستقل جماعت شروع کرا دی جس پر آج تک امت متفق ہے۔ سواب یہی سنت ہے۔ خصوصاً جب کہ قراء اور حفاظ کی کثرت نہیں رہی اور لمبی نماز کا شوق بھی عنقا ہے۔ (۲) عہدِ رسالت اور عہد صحابہ و تابعین میں رات کے قیام، یعنی تہجد کو قیام اللیل یا تہجد کہا جاتا تھا، اس حدیث میں بھی اس کے لیے قیام ہی کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ بعد میں رمضان کے قیام کو ’’تراویح‘‘ کہا جانے لگا جو ترویحہ کی جمع ہے، تاہم تہجد، قیام اللیل اور تراویح ایک ہی نماز (تہجد) کا نام ہے، البتہ رمضان کے قیام کےل یے تراوی کا لفظ معروف ہوگیا ہے، علاوہ ازیں عوام کی سہولت کے پیش نظر اسے عشاء کی نماز کے فوراً بعد پڑھ لیا جاتا ہے کیونکہ تہجد کے وقت کا آغاز نماز عشاء کے بعد شروع ہو جاتا اور طلوع فجر تک رہتا ہے۔ گو اس کا عام دنوں میں افضل وقت ثلث لیل کا آخری پہر ہی ہے، تاہم اسے رمضان المبارک کے اول وقت میں باجماعت پڑھنا افضل ہے۔ (۳) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں قیام کا خاص اہتمام کرنا چاہیے کیونکہ لیلۃ القدر انھی میں سے ایک رات ہوتی ہے۔ (۱) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بعد کی راتوں میں تراویح نہ پڑھانا فرضیت کے ڈر سے تھا جیسا کہ آپ نے خود فرمایا ہے۔ آپ کی وفات کے بعد یہ ڈر نہ رہا، لہٰذا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مستقل جماعت شروع کرا دی جس پر آج تک امت متفق ہے۔ سواب یہی سنت ہے۔ خصوصاً جب کہ قراء اور حفاظ کی کثرت نہیں رہی اور لمبی نماز کا شوق بھی عنقا ہے۔ (۲) عہدِ رسالت اور عہد صحابہ و تابعین میں رات کے قیام، یعنی تہجد کو قیام اللیل یا تہجد کہا جاتا تھا، اس حدیث میں بھی اس کے لیے قیام ہی کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ بعد میں رمضان کے قیام کو ’’تراویح‘‘ کہا جانے لگا جو ترویحہ کی جمع ہے، تاہم تہجد، قیام اللیل اور تراویح ایک ہی نماز (تہجد) کا نام ہے، البتہ رمضان کے قیام کےل یے تراوی کا لفظ معروف ہوگیا ہے، علاوہ ازیں عوام کی سہولت کے پیش نظر اسے عشاء کی نماز کے فوراً بعد پڑھ لیا جاتا ہے کیونکہ تہجد کے وقت کا آغاز نماز عشاء کے بعد شروع ہو جاتا اور طلوع فجر تک رہتا ہے۔ گو اس کا عام دنوں میں افضل وقت ثلث لیل کا آخری پہر ہی ہے، تاہم اسے رمضان المبارک کے اول وقت میں باجماعت پڑھنا افضل ہے۔ (۳) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں قیام کا خاص اہتمام کرنا چاہیے کیونکہ لیلۃ القدر انھی میں سے ایک رات ہوتی ہے۔