سنن النسائي - حدیث 1359

كِتَابُ السَّهْوِ بَاب قُعُودِ الْإِمَامِ فِي مُصَلَّاهُ بَعْدَ التَّسْلِيمِ صحيح أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ قَالَ حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ وَذَكَرَ آخَرَ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ قَالَ قُلْتُ لِجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ كُنْتَ تُجَالِسُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ نَعَمْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى الْفَجْرَ جَلَسَ فِي مُصَلَّاهُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَيَتَحَدَّثُ أَصْحَابُهُ يَذْكُرُونَ حَدِيثَ الْجَاهِلِيَّةِ وَيُنْشِدُونَ الشِّعْرَ وَيَضْحَكُونَ وَيَتَبَسَّمُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1359

کتاب: نماز میں بھول جانے کے متعلق احکام و مسائل سلام کے بعد مصلے پر بیٹھے رہنا حضرت سماک بن حرب سے روایت ہے کہ میں نے حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے کہا: آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا کرتےتھے؟ انھوں نے فرمایا: ہاں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب فجر کی نماز پڑھ لیتے تو سورج طلوع ہونے تک اپنی نماز والی جگہ میں بیٹھے رہتے۔ آپ کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم آپ کے سامنے باتیں کرتے رہتے۔ کبھی جاہلیت کی باتیں ذکر کرتے، کبھی شعر پڑھتے اور ہنستے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے رہتے۔
تشریح : نماز کے بعد مسنون ذکر اذکار کے لیے بیٹھنا تو متفق علیہ چیز ہے۔ امام کو دوسروں کی نسبت زیادہ پابندی کرنی چاہیے۔ ذکر اذکار کے علاوہ جن نمازوں کے بعد مؤکدہ سنتیں نہیں، مثلاً: فجر اور عصر تو مناسب ہے کہ امام بیٹھا رہے تاکہ لوگ اپنے مسائل پیش کریں۔ اس طرح عوام الناس سے امام کا رابطہ قائم ہوگا۔ معلومات عامہ سے واقفیت رہے گی۔ لوگوں کے ساتھ خوش طبعی کے ساتھ میل جول رکھنا بھی نیکی ہے۔ فرض نماز کے بعد ذکر اذکار مؤکدہ سنتوں سے پہلےپڑھنے چاہئیں۔ عام احادیث سے یہی معلوم ہوتا ہے۔ باقی رہی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث کہ آپ سلام کے بعد صرف [اللھم انت السلام ……… الخ] والی دعا پڑھنے کے برابر ہی بیٹھتے تھے تو اس سے مراد قبلہ رخ بیٹھنا ہے نہ کہ مطلقاً، یعنی اتنی دیر آپ قبلہ رخ بیٹھتے، پھر مقتدیوں کی طرف متوجہ ہو جاتے۔ صحابہ آپ کے پاس ایسے شعر ہی پڑھتے ہوں گے جو شاعرانہ یا وہ گوئی سے پاک ہوں گے۔ اچھے اشعار تھوڑی مقدار میں باقاعدہ مجلس قائم کیے بغیر پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، البتہ مساجد میں باقاعدہ شعر گوئی کی مجالس منعقد کرنا درست نہیں۔ شعروں سے زیادہ دلچسپی قرآن مجید سے دور کرتی ہے۔ نماز کے بعد مسنون ذکر اذکار کے لیے بیٹھنا تو متفق علیہ چیز ہے۔ امام کو دوسروں کی نسبت زیادہ پابندی کرنی چاہیے۔ ذکر اذکار کے علاوہ جن نمازوں کے بعد مؤکدہ سنتیں نہیں، مثلاً: فجر اور عصر تو مناسب ہے کہ امام بیٹھا رہے تاکہ لوگ اپنے مسائل پیش کریں۔ اس طرح عوام الناس سے امام کا رابطہ قائم ہوگا۔ معلومات عامہ سے واقفیت رہے گی۔ لوگوں کے ساتھ خوش طبعی کے ساتھ میل جول رکھنا بھی نیکی ہے۔ فرض نماز کے بعد ذکر اذکار مؤکدہ سنتوں سے پہلےپڑھنے چاہئیں۔ عام احادیث سے یہی معلوم ہوتا ہے۔ باقی رہی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث کہ آپ سلام کے بعد صرف [اللھم انت السلام ……… الخ] والی دعا پڑھنے کے برابر ہی بیٹھتے تھے تو اس سے مراد قبلہ رخ بیٹھنا ہے نہ کہ مطلقاً، یعنی اتنی دیر آپ قبلہ رخ بیٹھتے، پھر مقتدیوں کی طرف متوجہ ہو جاتے۔ صحابہ آپ کے پاس ایسے شعر ہی پڑھتے ہوں گے جو شاعرانہ یا وہ گوئی سے پاک ہوں گے۔ اچھے اشعار تھوڑی مقدار میں باقاعدہ مجلس قائم کیے بغیر پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، البتہ مساجد میں باقاعدہ شعر گوئی کی مجالس منعقد کرنا درست نہیں۔ شعروں سے زیادہ دلچسپی قرآن مجید سے دور کرتی ہے۔