سنن النسائي - حدیث 1346

كِتَابُ السَّهْوِ نَوْعٌ آخَرُ مِنْ الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ بَعْدَ التَّسْلِيمِ ضعيف الإسناد أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ حَدَّثَنَا يَعْلَى قَالَ حَدَّثَنَا قُدَامَةُ عَنْ جَسْرَةَ قَالَتْ حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ دَخَلَتْ عَلَيَّ امْرَأَةٌ مِنْ الْيَهُودِ فَقَالَتْ إِنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ مِنْ الْبَوْلِ فَقُلْتُ كَذَبْتِ فَقَالَتْ بَلَى إِنَّا لَنَقْرِضُ مِنْهُ الْجِلْدَ وَالثَّوْبَ فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الصَّلَاةِ وَقَدْ ارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُنَا فَقَالَ مَا هَذَا فَأَخْبَرْتُهُ بِمَا قَالَتْ فَقَالَ صَدَقَتْ فَمَا صَلَّى بَعْدَ يَوْمِئِذٍ صَلَاةً إِلَّا قَالَ فِي دُبُرِ الصَّلَاةِ رَبَّ جِبْرِيلَ وَمِيكَائِيلَ وَإِسْرَافِيلَ أَعِذْنِي مِنْ حَرِّ النَّارِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1346

کتاب: نماز میں بھول جانے کے متعلق احکام و مسائل سلام کے بعدایک اور قسم کا ذکر اور دعا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک یہودی عورت میرے پاس آئی اور کہنے لگی کہ پیشاب کے چھینٹےپڑنے سے قبر میں عذاب ہوتا ہے۔ میں نے کہا: تو غلط کہتی ہے۔ اس نے کہا: نہیں، بلکہ سچ ہے۔ ہم پیشاب کے چھیٹنے پڑنے سے چمڑا اور کپڑا کاٹتے تھے۔ (اسی دوران میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے نکلے تو ہم اونچی اونچی بول رہی تھیں۔ آپ نے فرمایا: ’’کیا ہوا؟‘‘ میں نے آپ سے بات بیان کی۔ آپ نے فرمایا: ’’یہ صحیح کہتی ہے۔‘‘ اس دن کے بعد آپنے جب بھی نماز پڑھی تو نماز کے بعد یہ دعا ضرور پڑھی: [رب جبریل و میکائیل و إسرافیل أعدنی من حرالنار و عذاب القبر] ’’اے جبریل، میکائیل اور اسرافیل کے رب! مجھے آگ کی تپش اور قبر کے عذاب سے بچا۔‘‘
تشریح : (۱) پیشاب کے چھینٹوں سے پرہیز نہ کرنا عذاب قبر کا سبب ہے۔ یہ بات دیگر روایات میں بھی بیان کی گئی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ان کا علم نہ ہوگا یا یہ واقعہ پہلے کا ہے جیسا کہ حدیث کے آخر سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اس کے بعد ہمیشہ عذاب قبر سے پناہ مانگتے رہے۔ (۲) ’’چمڑا اور کپڑا کاٹتے تھے۔‘‘ چمڑے سے مراد بھی پہنا ہوا چمڑا ہے جسے پیشاب لگتا تھا نہ کہ اپنے جسم کا چمڑا کیونکہ پیشاب تو نکلتا ہی جسم سے ہے اور اس کا جسم کو لگنا لازمی ہے، تبھی تو استنجا ضروری ہے۔ اگر وہاں دھونا کفایت کرتا تھا تو جسم کے دیگر حصوں کو بھی کاٹنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ ہاں، ملبوس کپڑایا چمڑا چونکہ جسم سے جدا ہے، اسے پیشاب کے قطرے لگنا انسان کی غلطی اور سستی کا نتیجہ ہے، لہٰذا انھیں کاٹنے کی سزا دی جا سکتی ہے۔ بعض علماء نے اس سے جسم کا چمڑا بھی مراد لیا ہے مگر یہ درست نہیں۔ ویسے بھی یہ تکلیف مالا یطاق ہے، یعنی اس پرعمل ناممکن ہے۔ بعض روایات میں [جسد] کا لفظ بھی آیا ہے۔ لیکن یہ عاصم بن بہدلہ کا وہم ہے کہ اس نے نسخ سے جسم کا چمڑا سمجھا اور پھر اس کی جگہ لفظ [جسد] (جسم) بول دیا۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے ’’جسد احدھم‘‘ کو منکر کہا ہے۔ دیکھیے: (ضعیف سن أبي داود (مفصل) للألباني، رقم الحدیث: ۵) (شاذ (بات) کی تاویل کی جانی چاہیے، عقلا شاذ ہو یا نقلا‘‘ وہ غیر معتبر ہے۔ (مزید دیکھیے، حدیث: ۳۰ کا فائدہ نمبر: ۳) (۳) ’’جبریلؑ میکائیلؑ، اسرافیل کے رب!‘‘ اس قسم کے الفاظ سے مقصود رب تعالیٰ کی عظمت کا اظہار ہے، یعنی اتنی عظیم الشان مخلوق کو پیدا کرنے والا۔ اسی طرح آسمانوں، زمینوں کے رب برحق، مغرب کے رب وغیرہ۔ (۱) پیشاب کے چھینٹوں سے پرہیز نہ کرنا عذاب قبر کا سبب ہے۔ یہ بات دیگر روایات میں بھی بیان کی گئی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ان کا علم نہ ہوگا یا یہ واقعہ پہلے کا ہے جیسا کہ حدیث کے آخر سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اس کے بعد ہمیشہ عذاب قبر سے پناہ مانگتے رہے۔ (۲) ’’چمڑا اور کپڑا کاٹتے تھے۔‘‘ چمڑے سے مراد بھی پہنا ہوا چمڑا ہے جسے پیشاب لگتا تھا نہ کہ اپنے جسم کا چمڑا کیونکہ پیشاب تو نکلتا ہی جسم سے ہے اور اس کا جسم کو لگنا لازمی ہے، تبھی تو استنجا ضروری ہے۔ اگر وہاں دھونا کفایت کرتا تھا تو جسم کے دیگر حصوں کو بھی کاٹنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ ہاں، ملبوس کپڑایا چمڑا چونکہ جسم سے جدا ہے، اسے پیشاب کے قطرے لگنا انسان کی غلطی اور سستی کا نتیجہ ہے، لہٰذا انھیں کاٹنے کی سزا دی جا سکتی ہے۔ بعض علماء نے اس سے جسم کا چمڑا بھی مراد لیا ہے مگر یہ درست نہیں۔ ویسے بھی یہ تکلیف مالا یطاق ہے، یعنی اس پرعمل ناممکن ہے۔ بعض روایات میں [جسد] کا لفظ بھی آیا ہے۔ لیکن یہ عاصم بن بہدلہ کا وہم ہے کہ اس نے نسخ سے جسم کا چمڑا سمجھا اور پھر اس کی جگہ لفظ [جسد] (جسم) بول دیا۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے ’’جسد احدھم‘‘ کو منکر کہا ہے۔ دیکھیے: (ضعیف سن أبي داود (مفصل) للألباني، رقم الحدیث: ۵) (شاذ (بات) کی تاویل کی جانی چاہیے، عقلا شاذ ہو یا نقلا‘‘ وہ غیر معتبر ہے۔ (مزید دیکھیے، حدیث: ۳۰ کا فائدہ نمبر: ۳) (۳) ’’جبریلؑ میکائیلؑ، اسرافیل کے رب!‘‘ اس قسم کے الفاظ سے مقصود رب تعالیٰ کی عظمت کا اظہار ہے، یعنی اتنی عظیم الشان مخلوق کو پیدا کرنے والا۔ اسی طرح آسمانوں، زمینوں کے رب برحق، مغرب کے رب وغیرہ۔