سنن النسائي - حدیث 134

صِفَةُ الْوُضُوءِ بَاب النَّضْحِ صحيح أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ قَالَ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ الْحَكَمِ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا تَوَضَّأَ أَخَذَ حَفْنَةً مِنْ مَاءٍ فَقَالَ بِهَا هَكَذَا وَوَصَفَ شُعْبَةُ نَضَحَ بِهِ فَرْجَهُ فَذَكَرْتُهُ لِإِبْرَاهِيمَ فَأَعْجَبَهُ قَالَ الشَّيْخُ ابْنُ السُّنِّيِّ الْحَكَمُ هُوَ ابْنُ سُفْيَانَ الثَّقَفِيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 134

کتاب: وضو کا طریقہ وضو کے بعد شرم گاہ پر پانی کے چھینٹے مارنا حضرت سفیان ثقفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب وضو فرماتے تو پانی کا ایک چلو لیتے اور اسے ایسے کرتے۔ شعبہ نے اس کا طریقہ بیان کرتے ہوئے کہا: یعنی اپنی شرمگاہ پر چھڑک لیتے۔ میں نے یہ بات ابراہیم نخعی کو بتائی تو انھوں نے اسے بہت سراہا۔ شیخ ابن سنی رحمہ اللہ نے کہا: (سند میں مذکور) حکم سے مراد حکم بن سفیان ثقفی ہیں۔ (حکم بن سفیان کو بعض راویوں نے سفیان بن حکم بھی کہا ہے۔ یہ صحابی ہیں اور ان سے صرف یہی ایک حدیث منقول ہے۔)
تشریح : (۱) شرم گاہ پر چھینٹے مارنا وضو کا حصہ نہیں ہے، تاہم مسنون عمل ہے۔ (۲) اس عمل کی حکمت یہ ہو سکتی ہے کہ کبھی انسان کو کسی مرض وغیرہ کی وجہ سے یہ شبہ پڑ جاتا ہے کہ پیشاب کا کوئی قطرہ نکلا ہے، ایسا انسان معذور ہے، لہٰذا اس عذر کے پیش نظر یا شبہ دور کرنے کے لیے یہ طریقہ تجویز کیا گیا کہ وضو کے بعد شرم گاہ پر چھینٹے مارے جائیں تو شبہ دور ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ۔ (۳) جس آدمی کو مندرجہ بالا صورت حال پیش آئے وہ ایسا کرلے اور جسے یہ صورت پیش نہ آئے اس کے لیے بھی چلو بھر پانی سے چھینٹے مارنا مسنون ہے کیونکہ مذکورہ وجہ اور علت حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ (۴) بعض محققین کا خیال ہے کہ وہ آدمی جو تندرست ہو اور سلس البول کا مریض بھی نہ ہو، اور پیشاب سے اچھی طرح فراغت کے بغیر ہی کھڑا ہو جاتا ہو، نیز اسے وضو کرنے کے بعد یا اثنائے نماز قطرہ گرنے کا یقین بھی ہو تو ایسے آدمی کو چھینٹے کفایت نہ کریں گے بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ پیشاب سے آلودہ مقام دھوئے اور پھر وضو کرکے نماز پڑھے کیونکہ پیشاب نجس ہے، خواہ وہ قطرہ ہو یا اس سے زیادہ۔ دلائل کے اعتبار سے یہ موقف مضبوط اور راجح معلوم ہوتا ہے۔ واللہ أعلم۔ (۵) [توضا] کے معنی ہوں گے، جب وضو سے فارغ ہوتے۔ (۱) شرم گاہ پر چھینٹے مارنا وضو کا حصہ نہیں ہے، تاہم مسنون عمل ہے۔ (۲) اس عمل کی حکمت یہ ہو سکتی ہے کہ کبھی انسان کو کسی مرض وغیرہ کی وجہ سے یہ شبہ پڑ جاتا ہے کہ پیشاب کا کوئی قطرہ نکلا ہے، ایسا انسان معذور ہے، لہٰذا اس عذر کے پیش نظر یا شبہ دور کرنے کے لیے یہ طریقہ تجویز کیا گیا کہ وضو کے بعد شرم گاہ پر چھینٹے مارے جائیں تو شبہ دور ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ۔ (۳) جس آدمی کو مندرجہ بالا صورت حال پیش آئے وہ ایسا کرلے اور جسے یہ صورت پیش نہ آئے اس کے لیے بھی چلو بھر پانی سے چھینٹے مارنا مسنون ہے کیونکہ مذکورہ وجہ اور علت حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ (۴) بعض محققین کا خیال ہے کہ وہ آدمی جو تندرست ہو اور سلس البول کا مریض بھی نہ ہو، اور پیشاب سے اچھی طرح فراغت کے بغیر ہی کھڑا ہو جاتا ہو، نیز اسے وضو کرنے کے بعد یا اثنائے نماز قطرہ گرنے کا یقین بھی ہو تو ایسے آدمی کو چھینٹے کفایت نہ کریں گے بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ پیشاب سے آلودہ مقام دھوئے اور پھر وضو کرکے نماز پڑھے کیونکہ پیشاب نجس ہے، خواہ وہ قطرہ ہو یا اس سے زیادہ۔ دلائل کے اعتبار سے یہ موقف مضبوط اور راجح معلوم ہوتا ہے۔ واللہ أعلم۔ (۵) [توضا] کے معنی ہوں گے، جب وضو سے فارغ ہوتے۔