سنن النسائي - حدیث 1336

كِتَابُ السَّهْوِ التَّكْبِيرُ بَعْدَ تَسْلِيمِ الْإِمَامِ صحيح أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ الْعَسْكَرِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ أَبِي مَعْبَدٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ إِنَّمَا كُنْتُ أَعْلَمُ انْقِضَاءَ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالتَّكْبِيرِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1336

کتاب: نماز میں بھول جانے کے متعلق احکام و مسائل امام کے سلام پھیر نے کے بعد( بلند آواز سے )اللہ اکبر کہنا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا اختتام لوگوں کے اللہ أکبر کہنے سے معلوم کرتا تھا۔
تشریح : (۱) نماز سے فراغت کے بعد ذکر مسنون ہے۔ اس کی ابتدا اللہ أکبر سے کی جائے۔ آواز درمیانی ہو، نہ بہت بلند ہو اور نہ بالکل آہستہ تاکہ سب مقتدیوں کی آواز مل کر ایک گونج سی پیدا ہو جائے باقی ذکر آہستہ کیا جائے۔ (۲) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نابالغ ہونے کی وجہ سے پچھلی صفوں میں کھڑے ہوتے تھے، اس لیے ان تک سلام کی آواز نہیں پہنچتی تھی۔ سلام کے بعد جب تکبیر کی آوازگونجتی تو انھیں نماز کے ختم ہونے کا پتہ چلتا۔ ممکن ہے تکبیر بلند آواز سے کہنے میں یہ حکمت بھی ہو کہ لوگوں کو نماز ختم ہونے کا پتہ چل جائے، جیسے نماز میں تکبیرات انتقال بلند آواز سے کہی جاتی ہیں، اذان بلند آواز سے کہی جاتی ہے وغیرہ، لہٰذا یہ بات کمزور ہ کہ ذکر میں اخفا مناسب ہے، اس لیے سلام کے بعد تکبیر آہستہ کہی جائے جیسا کہ یہ جمہور اہل علم کا موقف ہے۔ (۱) نماز سے فراغت کے بعد ذکر مسنون ہے۔ اس کی ابتدا اللہ أکبر سے کی جائے۔ آواز درمیانی ہو، نہ بہت بلند ہو اور نہ بالکل آہستہ تاکہ سب مقتدیوں کی آواز مل کر ایک گونج سی پیدا ہو جائے باقی ذکر آہستہ کیا جائے۔ (۲) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نابالغ ہونے کی وجہ سے پچھلی صفوں میں کھڑے ہوتے تھے، اس لیے ان تک سلام کی آواز نہیں پہنچتی تھی۔ سلام کے بعد جب تکبیر کی آوازگونجتی تو انھیں نماز کے ختم ہونے کا پتہ چلتا۔ ممکن ہے تکبیر بلند آواز سے کہنے میں یہ حکمت بھی ہو کہ لوگوں کو نماز ختم ہونے کا پتہ چل جائے، جیسے نماز میں تکبیرات انتقال بلند آواز سے کہی جاتی ہیں، اذان بلند آواز سے کہی جاتی ہے وغیرہ، لہٰذا یہ بات کمزور ہ کہ ذکر میں اخفا مناسب ہے، اس لیے سلام کے بعد تکبیر آہستہ کہی جائے جیسا کہ یہ جمہور اہل علم کا موقف ہے۔