سنن النسائي - حدیث 1319

كِتَابُ السَّهْوِ بَاب مَوْضِعِ الْيَدَيْنِ عِنْدَ السَّلَامِ صحيح أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ عَنْ مِسْعَرٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ابْنِ الْقِبْطِيَّةِ قَالَ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ يَقُولُ كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا السَّلَامُ عَلَيْكُمْ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَأَشَارَ مِسْعَرٌ بِيَدِهِ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ فَقَالَ مَا بَالُ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ يَرْمُونَ بِأَيْدِيهِمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ أَمَا يَكْفِي أَنْ يَضَعَ يَدَهُ عَلَى فَخِذِهِ ثُمَّ يُسَلِّمُ عَلَى أَخِيهِ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1319

کتاب: نماز میں بھول جانے کے متعلق احکام و مسائل سلام کہتے وقت ہاتھ کس جگہ ہوں؟ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (ابتدا میں) جب ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےپیچھے نماز پڑھتے تھے تو ہم [السلام علیکم، السلام علیکم] کہتے اور ساتھ ہاتھوں کو بھی دائیں بائیں اٹھاتے تھے۔ (یعنی دائیں طرف سلام کے وقت دائیں طرف اور بائیں طرف سلام کے وقت بائیں طرف ہاتھ اٹھاتے۔) آپ نے(دیکھا تو) فرمایا: ’’انھیں کیا ہے کہ اپنے ہاتھوں سے (دائیں بائیں) اشارے کرتے ہیں جیسے سرکش گھوڑوں کی دمیں ہیں۔ کیا یہ کافی نہیں کہ نمازی اپنے ہاتھ اپنی رات ہی پر رکھے اور زبان سے اپنے دائیں اور بائیں اپنے ساتھیوں کو سلام کہہ دے۔‘‘
تشریح : اس حدیث سے واضح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا رفع الیدین کو سرکش گھوڑوں کی دموں سے تعبیر کرنا، سلام کے وقت ہاتھوں سے سلام کرنے سے متعلق ہے۔ اس کا اس رفع الیدین سے کوئی تعلق نہیں ہے جو رکوع میں جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت کیا جاتا ہے۔ اسے اس رفع الیدین سے جوڑ کر یہ کہنا کہ اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روک دیا تھا، علمی خیانت ہے۔ أعادنا اللہ منہ۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے، حدیث: ۱۱۸۵، ۱۱۶۸) اس حدیث سے واضح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا رفع الیدین کو سرکش گھوڑوں کی دموں سے تعبیر کرنا، سلام کے وقت ہاتھوں سے سلام کرنے سے متعلق ہے۔ اس کا اس رفع الیدین سے کوئی تعلق نہیں ہے جو رکوع میں جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت کیا جاتا ہے۔ اسے اس رفع الیدین سے جوڑ کر یہ کہنا کہ اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روک دیا تھا، علمی خیانت ہے۔ أعادنا اللہ منہ۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے، حدیث: ۱۱۸۵، ۱۱۶۸)