كِتَابُ السَّهْوِ نَوْعٌ آخَرُ صحيح أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ شُعَيْبٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَدْعُو فِي الصَّلَاةِ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ فَقَالَ لَهُ قَائِلٌ مَا أَكْثَرَ مَا تَسْتَعِيذُ مِنْ الْمَغْرَمِ فَقَالَ إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا غَرِمَ حَدَّثَ فَكَذَبَ وَوَعَدَ فَأَخْلَفَ
کتاب: نماز میں بھول جانے کے متعلق احکام و مسائل
ایک اور قسم کی دعا
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں یہ دعا پڑھتے تھے: [اللھم! إنی أعوذبک من عذاب القبر ……… والمغرم] ’’اے اللہ! میں قبر کے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور مسیح دجال کے فتنہ و آزمائش سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور زندگی اور موت کے فتنے سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور اے اللہ! میں گناہ اور قرض (یا گناہوں کے بوجھ) سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔‘‘ کسی کہنے والے نے آپ سے کہا: آپ قرض سے کس قدر زیادہ پناہ طلب کرتے ہیں! آپ نے فرمایا: ’’جب کوئی آدمی مقروض ہو جاتا ہے، پھر بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے۔‘‘
تشریح :
(۱) ’’مسیح دجال‘‘ احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت سے قبل ایک شخص دنیا پر غلبہ حال کر لے گا۔ وہ دنیوی طور پر ترقی یافتہ ہوگا اور لوگوں کو اپنے سائنسی و دیگر کمالات سے مرعوب کرے گا۔ دینی طور پر وہ رب ہونے کا دعویٰ کرے گا اور سب لوگوں کو اپنا کلمہ پڑھوانے کی کوشش کرے گا۔ سخت دغا باز اور دھوکے باز ہوگا۔ یہ دجال کے معنی ہیں۔ مسیحاسے اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ ممسوح العین (کانا) ہوگا۔ یہودی اسے اپنا نجات دہندہ قرار دیں گے۔ وہ اسی کے انتظار میں ہیں، ورنہ حقیقی مسیح تو کب کا آچکا جسے انھوں نے نہ مانا۔ اس جعلی مسیح کو مانیں گے جو ان میں سے ہوگا۔ دونوں آنکھوں سے عیب ناک ہوگا۔ یہودیوں نے حقیقی مسیح عیسیٰ علیہ السلام کو سولی دینے کی ناپاک جسارت کی تو اللہ تعالیٰ نے انھیں یہودیوں کے شر سے بچانے کے لیے زندہ آسمان پر اٹھا لیا اور قیامت کے نزدیک اللہ تعالیٰ انھیں پھر زمین پر اتارے گا، وہ اس جعلی دھوکے باز مسیح کو قتل کر کے اس کی مسیحیت کا بھانڈا پھوڑ دیں گے اور دنیا کو اس کے ظلم و ستم سے نجات دلائیں گے۔ اس کے قتل سے یہودیت کا خاتمہ ہو جائے گا اور عیسائیت کو عیسیٰ علیہ السلام اپنی زبانی اور اپنے ہاتھوں سے ختم کر دیں گے۔ عیسائیت کے نشان صلیب اور خنزیر کا نام و نشان مٹائیں گے۔ خالص اسلام کا بول بالا ہوگا۔ ان شاء اللہ۔ (۲) ’’زندگی کا فتنہ‘‘ یہ ہے کہ انسان زندگی میں رب تعالیٰ کا نافرمان رہے۔ دین حق سے برگشتہ رہے۔ زندگی کی خوش نمائیوں میں کھو کر حق تعالیٰ سے غافل رہے۔ اور ’’موت کا فتنہ‘‘ یہ ہے کہ مرتے وقت شیطان گمراہ کر دے۔ کلمۂ توحید نصیب نہ ہو۔ بری حالت پر موت آئے۔ العیاذ باللہ۔ ممکن ہے اس عذاب قبر، یعنی سوال و جواب میں ناکامی مراد ہو۔ یا مقلب القلوب نسبت قلوبنا علی دینک۔ (۳) اپنے وسائل سے بڑھ کر قرض اٹھانا کہ بعد میں اس ادا نہ کیا جاسکے، درست نہیں ہے۔ (۴) وعدہ خلافی کرنا اور جھوٹ بولنا حرام ہے۔ (۵) مذکورہ اشیاء سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے رہنا چاہیے۔
(۱) ’’مسیح دجال‘‘ احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت سے قبل ایک شخص دنیا پر غلبہ حال کر لے گا۔ وہ دنیوی طور پر ترقی یافتہ ہوگا اور لوگوں کو اپنے سائنسی و دیگر کمالات سے مرعوب کرے گا۔ دینی طور پر وہ رب ہونے کا دعویٰ کرے گا اور سب لوگوں کو اپنا کلمہ پڑھوانے کی کوشش کرے گا۔ سخت دغا باز اور دھوکے باز ہوگا۔ یہ دجال کے معنی ہیں۔ مسیحاسے اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ ممسوح العین (کانا) ہوگا۔ یہودی اسے اپنا نجات دہندہ قرار دیں گے۔ وہ اسی کے انتظار میں ہیں، ورنہ حقیقی مسیح تو کب کا آچکا جسے انھوں نے نہ مانا۔ اس جعلی مسیح کو مانیں گے جو ان میں سے ہوگا۔ دونوں آنکھوں سے عیب ناک ہوگا۔ یہودیوں نے حقیقی مسیح عیسیٰ علیہ السلام کو سولی دینے کی ناپاک جسارت کی تو اللہ تعالیٰ نے انھیں یہودیوں کے شر سے بچانے کے لیے زندہ آسمان پر اٹھا لیا اور قیامت کے نزدیک اللہ تعالیٰ انھیں پھر زمین پر اتارے گا، وہ اس جعلی دھوکے باز مسیح کو قتل کر کے اس کی مسیحیت کا بھانڈا پھوڑ دیں گے اور دنیا کو اس کے ظلم و ستم سے نجات دلائیں گے۔ اس کے قتل سے یہودیت کا خاتمہ ہو جائے گا اور عیسائیت کو عیسیٰ علیہ السلام اپنی زبانی اور اپنے ہاتھوں سے ختم کر دیں گے۔ عیسائیت کے نشان صلیب اور خنزیر کا نام و نشان مٹائیں گے۔ خالص اسلام کا بول بالا ہوگا۔ ان شاء اللہ۔ (۲) ’’زندگی کا فتنہ‘‘ یہ ہے کہ انسان زندگی میں رب تعالیٰ کا نافرمان رہے۔ دین حق سے برگشتہ رہے۔ زندگی کی خوش نمائیوں میں کھو کر حق تعالیٰ سے غافل رہے۔ اور ’’موت کا فتنہ‘‘ یہ ہے کہ مرتے وقت شیطان گمراہ کر دے۔ کلمۂ توحید نصیب نہ ہو۔ بری حالت پر موت آئے۔ العیاذ باللہ۔ ممکن ہے اس عذاب قبر، یعنی سوال و جواب میں ناکامی مراد ہو۔ یا مقلب القلوب نسبت قلوبنا علی دینک۔ (۳) اپنے وسائل سے بڑھ کر قرض اٹھانا کہ بعد میں اس ادا نہ کیا جاسکے، درست نہیں ہے۔ (۴) وعدہ خلافی کرنا اور جھوٹ بولنا حرام ہے۔ (۵) مذکورہ اشیاء سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے رہنا چاہیے۔