سنن النسائي - حدیث 13

ذِكْرُ الْفِطْرَةِ قَصُّ الشَّارِبِ صحيح أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ أَنْبَأَنَا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ عَنْ يُوسُفَ بْنِ صُهَيْبٍ عَنْ حَبِيبِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ لَمْ يَأْخُذْ شَارِبَهُ فَلَيْسَ مِنَّا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 13

کتاب: امور فطرت کا بیان مونچھیں کاٹنا حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص اپنی مونچھیں نہ کاٹے وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘
تشریح : (۱) مونچھیں، بلوغت کا نشان ہیں، اس سے بچے اور بڑے میں تمیز ہوتی ہے، مگر یہ منہ کے اوپر ہوتی ہیں، زیادہ بڑی ہو جائیں تو کھانے پینے کی چیزوں کو لگیں گی۔ خود بھی آلودہ ہوں گی اور کھانے پینے کی چیزیں بھی گرد و غبار وغیرہ سمیت پیٹ میں جائیں گی، لہٰذا بالائی ہونٹ سے نیچے مونچھوں کو کاٹنا عقلی تقاضا ہے۔ شریعت اسلامیہ کا حکم بھی یہی،البتہ مونچھوں کے کنارے جو ڈاڑھی سے مل جائیں، بغیر کاٹے رکھے جا سکتے ہیں۔ (۲) مذکورہ احادیث میں پانچ فطری امور ذکر کیے گئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ صرف یہ پانچ چیزیں ہی فطرت میں داخل ہیں بلکہ دوسری احادیث میں ان کے علاوہ کچھ اور چیزوں کا بھی ذکر ہے، مثلاً: ایک روایت میں ہے: [عشر من الفطرہ]’’چس چیزیں فطرت سے ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم، الطھارۃ، حدیث ۲۶۱) ان کا ذکر ان شاء اللہ اپنے مقام پر آئے گا (۱) مونچھیں، بلوغت کا نشان ہیں، اس سے بچے اور بڑے میں تمیز ہوتی ہے، مگر یہ منہ کے اوپر ہوتی ہیں، زیادہ بڑی ہو جائیں تو کھانے پینے کی چیزوں کو لگیں گی۔ خود بھی آلودہ ہوں گی اور کھانے پینے کی چیزیں بھی گرد و غبار وغیرہ سمیت پیٹ میں جائیں گی، لہٰذا بالائی ہونٹ سے نیچے مونچھوں کو کاٹنا عقلی تقاضا ہے۔ شریعت اسلامیہ کا حکم بھی یہی،البتہ مونچھوں کے کنارے جو ڈاڑھی سے مل جائیں، بغیر کاٹے رکھے جا سکتے ہیں۔ (۲) مذکورہ احادیث میں پانچ فطری امور ذکر کیے گئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ صرف یہ پانچ چیزیں ہی فطرت میں داخل ہیں بلکہ دوسری احادیث میں ان کے علاوہ کچھ اور چیزوں کا بھی ذکر ہے، مثلاً: ایک روایت میں ہے: [عشر من الفطرہ]’’چس چیزیں فطرت سے ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم، الطھارۃ، حدیث ۲۶۱) ان کا ذکر ان شاء اللہ اپنے مقام پر آئے گا