سنن النسائي - حدیث 1283

كِتَابُ السَّهْوِ بَاب السَّلَامِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صحيح أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِ الْحَكَمِ الْوَرَّاقُ قَالَ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ سَعِيدٍ ح و أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ زَاذَانَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ لِلَّهِ مَلَائِكَةً سَيَّاحِينَ فِي الْأَرْضِ يُبَلِّغُونِي مِنْ أُمَّتِي السَّلَامَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1283

کتاب: نماز میں بھول جانے کے متعلق احکام و مسائل نبیﷺپرسلام پڑھنا حضرت عبداللہ بن مسعود ری اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیان کرتے ہیں کہ ’’تحقیق اللہ تعالیٰ نے کچھ فرشتے مقرر کر رکھے ہیں جو زمین میں ہر وقت چلتے پھرتے رہتے ہیں۔ وہ مجھے میری امت کی طرف سے سلام پہنچاتے ہیں۔‘‘
تشریح : (۱)نماز میں آپ پر سلام پڑھنا فرض ہے، آگے پیچھے بھی آپ پر سلام پڑھنا ایک بہت بڑی فضیلت ہے اور یہی مرتبہ آپ پر صلاۃ (درود) کا ہے کیونکہ یہ قرآنی حکم ہے: (یایھا الذین امنوا صلوا علیہ وسلموا تسلیما) (الأحزاب ۵۶:۳۳) صلی اللہ علیہ وسلم۔ (۲) نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کے علاوہ اکیلا سلام پڑھنا بھی درست ہے، یعنی اگر کوئی شخص صلی اللہ علیہ یا علیہ السلام اکیلا اکیلا کہہ دے تو جائز ہے۔ (۳) اس حدیث مبارکہ میں نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت سے سلام پڑھنے کی ترغیب ہے۔ (۴) اس حدیث مبارکہ سے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بلند مرتبہ اور عزت و عظمت واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی ڈیوٹی لگا رکھی ہے کہ جو آپ پر سلام پڑھے، فرشتے اس کا سلام آپ تک پہنچائیں۔ (۵) اس شخص کی فضیلت بھی اس سے ثابت ہوتی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام پڑھتا ہے اور اس کا سلام نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچایا جاتا ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس اس کا جواب دیتے ہیں جیسا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص بھی مجھے سلام کہتا ہے، اللہ مجھ پر میری روح لوٹا دیتا ہے اور میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔‘‘ (سنن أبي داود، المناسک، حدیث: ۲۰۴۱) یہ حدیث حسن درجے کی ہے۔ ’’روح لوٹانے‘‘ کی کئی ایک تاویلات کی گئی ہیں مگر اول و آخر یہی ہے کہ یہ عالم برزخ کا معاملہ ہے، اسے دنیا کی زندگی پر قیاس کرنا درست نہیں، علاوہ ازیں یہ متشابہات میں سے ہے۔ ہم کوئی اطمینان بخش تفصیل و توجیہ کرنے سے قاصر ہیں۔ واللہ أعلم۔ (۱)نماز میں آپ پر سلام پڑھنا فرض ہے، آگے پیچھے بھی آپ پر سلام پڑھنا ایک بہت بڑی فضیلت ہے اور یہی مرتبہ آپ پر صلاۃ (درود) کا ہے کیونکہ یہ قرآنی حکم ہے: (یایھا الذین امنوا صلوا علیہ وسلموا تسلیما) (الأحزاب ۵۶:۳۳) صلی اللہ علیہ وسلم۔ (۲) نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کے علاوہ اکیلا سلام پڑھنا بھی درست ہے، یعنی اگر کوئی شخص صلی اللہ علیہ یا علیہ السلام اکیلا اکیلا کہہ دے تو جائز ہے۔ (۳) اس حدیث مبارکہ میں نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت سے سلام پڑھنے کی ترغیب ہے۔ (۴) اس حدیث مبارکہ سے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بلند مرتبہ اور عزت و عظمت واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی ڈیوٹی لگا رکھی ہے کہ جو آپ پر سلام پڑھے، فرشتے اس کا سلام آپ تک پہنچائیں۔ (۵) اس شخص کی فضیلت بھی اس سے ثابت ہوتی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام پڑھتا ہے اور اس کا سلام نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچایا جاتا ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس اس کا جواب دیتے ہیں جیسا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص بھی مجھے سلام کہتا ہے، اللہ مجھ پر میری روح لوٹا دیتا ہے اور میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔‘‘ (سنن أبي داود، المناسک، حدیث: ۲۰۴۱) یہ حدیث حسن درجے کی ہے۔ ’’روح لوٹانے‘‘ کی کئی ایک تاویلات کی گئی ہیں مگر اول و آخر یہی ہے کہ یہ عالم برزخ کا معاملہ ہے، اسے دنیا کی زندگی پر قیاس کرنا درست نہیں، علاوہ ازیں یہ متشابہات میں سے ہے۔ ہم کوئی اطمینان بخش تفصیل و توجیہ کرنے سے قاصر ہیں۔ واللہ أعلم۔