سنن النسائي - حدیث 127

صِفَةُ الْوُضُوءِ بَاب التَّوْقِيتِ فِي الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ لِلْمُسَافِرِ حسن أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الرُّهَاوِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَمَالِكُ بْنُ مِغْوَلٍ وَزُهَيْرٌ وَأَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ وَسُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ زِرٍّ قَالَ سَأَلْتُ صَفْوَانَ بْنَ عَسَّالٍ عَنْ الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ فَقَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُنَا إِذَا كُنَّا مُسَافِرِينَ أَنْ نَمْسَحَ عَلَى خِفَافِنَا وَلَا نَنْزِعَهَا ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ غَائِطٍ وَبَوْلٍ وَنَوْمٍ إِلَّا مِنْ جَنَابَةٍ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 127

کتاب: وضو کا طریقہ مسافرکے لیے موزوں پر مسح کرنے کی مدت حضرت زر بن جبیش سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ سے موزوں پر مسح کرنے کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم دیتے تھے کہ جب ہم مسافر ہوں تو تین دن تک بول و براز اور نیند کی وجہ سے موزے نہ اتاریں بلکہ ان پر مسح کرتے رہیں، مگر جنابت کی بنا پر اتارنے ہوں گے۔
تشریح : (۱) موزوں پر مسح حضر اور سفر دونوں حالتوں میں جائز ہے۔ بعض لوگ اسے سفر کے ساتھ خاص کرتے ہیں لیکن اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سفر و حضر دونوں حالتوں میں مسح کرنے کا ثبوت ملتا ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو (ذخیرۃ العقبی، شرح سنن النسائي: ۹۵-۸۶/۳) (۲) چونکہ مسافر کو سفر میں کافی مصروفیت ہوتی ہے، اس لیے اس کی مجبوری کا لحاظ رکھتے ہوئے اس کے لیے مدت مسح زیادہ رکھی گئی۔ عام حالات میں مسافر کے لیے تین دن اور تین راتیں مسح کرنے کی اجازت ہے۔ اگر سفری مشقت زیادہ ہو، قافلے سے پیچھے رہ جانے کا اندیشہ ہو یا اگر انھیں روکا جائے تو اس وجہ سے وہ اذیت محسوس کریں، یا کوئی ایسی صورت لاحق ہو جائے کہ واقعتاً جرابوں یا موزوں کو اتارنے اور پھر وضو کرنے میں وقت یقینی ہو تو عمومی معینہ مدت سے زیادہ مدت تک بھی مسح کیا جا سکتا ہے، یہ حالتِ مجبوری میں ایک رخصت ہے۔ اس رخصت کی دلیل سنن ابن ماجہ کی صحیح حدیث ہے۔ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ وہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس مصر سے آئے، انھوں نے پوچھا: تو نے کب سے یہ موزے نہیں اتارے، انھوں نے جواب دیا: جمعے سے جمعے تک، حضرت عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: تو نے سنت طریقے کو پا لیا ہے۔ دیکھیے: (سنن ابن ماجہ، الطھارۃ، حدیث: ۵۵۸) بعض روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ فتح دمشق کی خوشخبری لے کر آئے تھے۔ رہا یہ اعتراض کہ مسافر کے لیے تو تین دن رات مسح کرنے کی رخصت ہے جبکہ اس حدیث سے تو ایک ہفتے تک مسح کا جواز بلکہ ضروریات کے تحت مزید ایام کی رخصت ہے، البتہ مذکورہ عذر کی صورت میں زیادہ دیر تک بھی مسح کیا جا سکتا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (تیسیر الفقہ الجامع للاختیارات الفقھیۃ: ۱۵۹/۱، والصحیحۃ للألباني: ۲۳۹/۶) (۳) مدت مسح وضو ٹوٹنے کے بعد پہلے مسح سے شمار ہوگی جیسے کہ مسح کی احادیث کے عموم سے ظاہر ہوتا ہے۔ (۴) مسح وضو میں ہوگا نہ کہ غسل میں۔ اگر غسل فرض ہو جائے تو موزے اتارنے ہوں گے۔ (۱) موزوں پر مسح حضر اور سفر دونوں حالتوں میں جائز ہے۔ بعض لوگ اسے سفر کے ساتھ خاص کرتے ہیں لیکن اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سفر و حضر دونوں حالتوں میں مسح کرنے کا ثبوت ملتا ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو (ذخیرۃ العقبی، شرح سنن النسائي: ۹۵-۸۶/۳) (۲) چونکہ مسافر کو سفر میں کافی مصروفیت ہوتی ہے، اس لیے اس کی مجبوری کا لحاظ رکھتے ہوئے اس کے لیے مدت مسح زیادہ رکھی گئی۔ عام حالات میں مسافر کے لیے تین دن اور تین راتیں مسح کرنے کی اجازت ہے۔ اگر سفری مشقت زیادہ ہو، قافلے سے پیچھے رہ جانے کا اندیشہ ہو یا اگر انھیں روکا جائے تو اس وجہ سے وہ اذیت محسوس کریں، یا کوئی ایسی صورت لاحق ہو جائے کہ واقعتاً جرابوں یا موزوں کو اتارنے اور پھر وضو کرنے میں وقت یقینی ہو تو عمومی معینہ مدت سے زیادہ مدت تک بھی مسح کیا جا سکتا ہے، یہ حالتِ مجبوری میں ایک رخصت ہے۔ اس رخصت کی دلیل سنن ابن ماجہ کی صحیح حدیث ہے۔ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ وہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس مصر سے آئے، انھوں نے پوچھا: تو نے کب سے یہ موزے نہیں اتارے، انھوں نے جواب دیا: جمعے سے جمعے تک، حضرت عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: تو نے سنت طریقے کو پا لیا ہے۔ دیکھیے: (سنن ابن ماجہ، الطھارۃ، حدیث: ۵۵۸) بعض روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ فتح دمشق کی خوشخبری لے کر آئے تھے۔ رہا یہ اعتراض کہ مسافر کے لیے تو تین دن رات مسح کرنے کی رخصت ہے جبکہ اس حدیث سے تو ایک ہفتے تک مسح کا جواز بلکہ ضروریات کے تحت مزید ایام کی رخصت ہے، البتہ مذکورہ عذر کی صورت میں زیادہ دیر تک بھی مسح کیا جا سکتا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (تیسیر الفقہ الجامع للاختیارات الفقھیۃ: ۱۵۹/۱، والصحیحۃ للألباني: ۲۳۹/۶) (۳) مدت مسح وضو ٹوٹنے کے بعد پہلے مسح سے شمار ہوگی جیسے کہ مسح کی احادیث کے عموم سے ظاہر ہوتا ہے۔ (۴) مسح وضو میں ہوگا نہ کہ غسل میں۔ اگر غسل فرض ہو جائے تو موزے اتارنے ہوں گے۔