سنن النسائي - حدیث 1243

كِتَابُ السَّهْوِ بَاب التَّحَرِّي صحيح أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ عَنْ مِسْعَرٍ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَزَادَ أَوْ نَقَصَ فَلَمَّا سَلَّمَ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلْ حَدَثَ فِي الصَّلَاةِ شَيْءٌ قَالَ لَوْ حَدَثَ فِي الصَّلَاةِ شَيْءٌ أَنْبَأْتُكُمُوهُ وَلَكِنِّي إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ أَنْسَى كَمَا تَنْسَوْنَ فَأَيُّكُمْ مَا شَكَّ فِي صَلَاتِهِ فَلْيَنْظُرْ أَحْرَى ذَلِكَ إِلَى الصَّوَابِ فَلْيُتِمَّ عَلَيْهِ ثُمَّ لِيُسَلِّمْ وَلْيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1243

کتاب: نماز میں بھول جانے کے متعلق احکام و مسائل (شک کی صورت میں صحیح تعداد جاننے کی) جستجو کرنا حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نماز پڑھی جس میں آپ سے زیادتی یا کمی ہوگئی۔ جب آپ نے سلام پھیرا تو آپ سے پوچھا گیا: کیا نماز کے بارے میں کوئی نیا حکم آ گیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’اگر نماز کے بارے میں کوئی نیا حکم آیا ہوتا تو میں تمھیں بتا دیتا۔ لیکن میں بھی ایک انسان ہوں، جس طرح تم بھول جاتے ہو، میں بھی بھول جاتا ہوں۔ جس آدمی کو بھی اپنی نماز میں شک پڑ جائے تو وہ دیکھے کون سی بات صحت کے زیادہ قریب ہے۔ پھر اس کے مطابق اپنی نماز مکمل کرے۔ پھر سلام پھیرے اور (سہو کے) دو سجدے کرے
تشریح : (۱)آگے آ رہا ہے کہ نماز میں آپ سے اضافہ ہوگیا تھا، یعنی ظہر کی نماز پانچ رکعت پڑھی گئی تھی۔ (۲) اگر سجدۂ سہو سلام کے بعد ہو تو وہ سلام دونوں طرف ہونا چاہیے، نہ کہ ایک طرف جیسا کہ احناف کا عمومی رواج ہے کیونکہ مطلق سلام کا لفظ دو سلام پر ہی محمول ہوگا جو کہ نماز میں مشروع ہو معہود ہیں۔ محققین احناف اسی کے قائل ہیں۔ (۳) جب لوگ کوئی نئی چیز دیکھیں تو اس کے متعلق پوچھنے میں کوئی حرج نہیں اور امام یا حاکم کو بھی اس کا برا نہیں منانا چاہیے بلکہ خوش دلی سے اس کا جواب دینا چاہیے (۱)آگے آ رہا ہے کہ نماز میں آپ سے اضافہ ہوگیا تھا، یعنی ظہر کی نماز پانچ رکعت پڑھی گئی تھی۔ (۲) اگر سجدۂ سہو سلام کے بعد ہو تو وہ سلام دونوں طرف ہونا چاہیے، نہ کہ ایک طرف جیسا کہ احناف کا عمومی رواج ہے کیونکہ مطلق سلام کا لفظ دو سلام پر ہی محمول ہوگا جو کہ نماز میں مشروع ہو معہود ہیں۔ محققین احناف اسی کے قائل ہیں۔ (۳) جب لوگ کوئی نئی چیز دیکھیں تو اس کے متعلق پوچھنے میں کوئی حرج نہیں اور امام یا حاکم کو بھی اس کا برا نہیں منانا چاہیے بلکہ خوش دلی سے اس کا جواب دینا چاہیے