سنن النسائي - حدیث 1239

كِتَابُ السَّهْوِ بَاب إِتْمَامِ الْمُصَلِّي عَلَى مَا ذَكَرَ إِذَا شَكَّ حسن صحيح أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَرَبِيٍّ قَالَ حَدَّثَنَا خَالِدٌ عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا شَكَّ أَحَدُكُمْ فِي صَلَاتِهِ فَلْيُلْغِ الشَّكَّ وَلْيَبْنِ عَلَى الْيَقِينِ فَإِذَا اسْتَيْقَنَ بِالتَّمَامِ فَلْيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ وَهُوَ قَاعِدٌ فَإِنْ كَانَ صَلَّى خَمْسًا شَفَعَتَا لَهُ صَلَاتَهُ وَإِنْ صَلَّى أَرْبَعًا كَانَتَا تَرْغِيمًا لِلشَّيْطَانِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1239

کتاب: نماز میں بھول جانے کے متعلق احکام و مسائل نماز ی کوشک پڑ جائے تو اپنی یادداشت کے مطابق نماز مکمل کرئے حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مرووی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کسی کو اپنی نماز میں شک پڑ جائے تو وہ شک دور کرے اور یقین پر بنیاد رکھے (یعنی یقین کے مطابق نماز جاری رکھے۔) جب اسے نماز مکمل ہونے کا یقین ہو جائے تو بیٹھاب یٹھا دو سجدے کرے۔ اگر اس نے پانچ (رکعات) پڑھی ہوں گی تو یہ دو سجدے اس کی نماز کو جفت بنا دیں گے۔ اور اگر اس نے چار (رکعات) پڑھی ہوں گی تو یہ دو سجدے شیطان کو ذلیل کرنے کا سبب بنیں گے۔‘‘
تشریح : (۱)’’شک دور کرے۔‘‘ اگر تین اور چار میں شک ہو تو تین سمجھے کیونکہ کم کا یقین اور زائد میں شک ہوتا ہے۔ (۲) ’’جفت بنا دیں گے۔‘‘ یعنی دو سجدے ایک رکعت کے قائم مقام ہو جائیں گے اور پانچویں رکعت سے مل کر دو نفل بن جائیں گے اور پہلی چار رکعتیں فرض ہوں گی، البتہ احناف کے نزدیک اس صورت میں ضروری ہے کہ ہر اس رکعت کے بعد بیٹھ کر تشہد پڑھے جس کا چوتھی ہونا ممکن ہو، یعنی آخری اور اس سے پہلی دونوں میں بیٹھے اور تشہد پڑھے ورنہ ساری نماز نفل ہو جائے گی۔ محدثین اور جمہور اہل علم کے نزدیک یہ ضروری نہیں کیونکہ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ چوتھی کو تیسری سمجھ کر سیدھا اٹھ کھڑا ہوا ہو اور شک بعد میں پڑا ہو۔ اس صورت میں آخری سے پہلی میں بیٹھنے کا امکان ہی نہیں۔ اور اکثر ایسے ہی ہوتا ہے، لہٰذا احناف کا قول غیر ضروری تشدد ہے جس کی دلیل سنت سے نہیں ملتی، صرف قیاس کے زور سے اتنا سخت فتویٰ نہیں دینا چاہیے۔ (۳) ’’شیطان کی رسوائی اور ذلت‘‘ کیونکہ سہو شیطان کی کوششوں ہی سے ہوا تھا مگر نمازی نے مزید دو سجدے کیے۔ گویا شیطان کا وسوسہ نمازی کے لیے دو سجدوں کے اضافے کا ذریعہ بن گیا جب کہ سجدے کے انکار ہی سے شیطان زاندۂ درگاہ ہوا تھا، لہٰذا اس کا رسوا اور ذلیل ہونا لازمی امر ہے۔ شاید اسی نکتے کی بنا پر سہو کا تدارک سجدے سے مشروع کیا گیا ہے۔ (۱)’’شک دور کرے۔‘‘ اگر تین اور چار میں شک ہو تو تین سمجھے کیونکہ کم کا یقین اور زائد میں شک ہوتا ہے۔ (۲) ’’جفت بنا دیں گے۔‘‘ یعنی دو سجدے ایک رکعت کے قائم مقام ہو جائیں گے اور پانچویں رکعت سے مل کر دو نفل بن جائیں گے اور پہلی چار رکعتیں فرض ہوں گی، البتہ احناف کے نزدیک اس صورت میں ضروری ہے کہ ہر اس رکعت کے بعد بیٹھ کر تشہد پڑھے جس کا چوتھی ہونا ممکن ہو، یعنی آخری اور اس سے پہلی دونوں میں بیٹھے اور تشہد پڑھے ورنہ ساری نماز نفل ہو جائے گی۔ محدثین اور جمہور اہل علم کے نزدیک یہ ضروری نہیں کیونکہ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ چوتھی کو تیسری سمجھ کر سیدھا اٹھ کھڑا ہوا ہو اور شک بعد میں پڑا ہو۔ اس صورت میں آخری سے پہلی میں بیٹھنے کا امکان ہی نہیں۔ اور اکثر ایسے ہی ہوتا ہے، لہٰذا احناف کا قول غیر ضروری تشدد ہے جس کی دلیل سنت سے نہیں ملتی، صرف قیاس کے زور سے اتنا سخت فتویٰ نہیں دینا چاہیے۔ (۳) ’’شیطان کی رسوائی اور ذلت‘‘ کیونکہ سہو شیطان کی کوششوں ہی سے ہوا تھا مگر نمازی نے مزید دو سجدے کیے۔ گویا شیطان کا وسوسہ نمازی کے لیے دو سجدوں کے اضافے کا ذریعہ بن گیا جب کہ سجدے کے انکار ہی سے شیطان زاندۂ درگاہ ہوا تھا، لہٰذا اس کا رسوا اور ذلیل ہونا لازمی امر ہے۔ شاید اسی نکتے کی بنا پر سہو کا تدارک سجدے سے مشروع کیا گیا ہے۔