سنن النسائي - حدیث 1230

كِتَابُ السَّهْوِ مَا يَفْعَلُ مَنْ سَلَّمَ مِنْ رَكْعَتَيْنِ نَاسِيًا وَتَكَلَّمَ صحيح الإسناد أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ مُوسَى الْفَرْوِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو ضَمْرَةَ عَنْ يُونُسَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ نَسِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمَ فِي سَجْدَتَيْنِ فَقَالَ لَهُ ذُو الشِّمَالَيْنِ أَقُصِرَتْ الصَّلَاةُ أَمْ نَسِيتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصَدَقَ ذُو الْيَدَيْنِ قَالُوا نَعَمْ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَمَّ الصَّلَاةَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1230

کتاب: نماز میں بھول جانے کے متعلق احکام و مسائل جوآدمی بھول کردو رکعتوں کےبعد سلام پیھر دے اور باتیں بھی کرلےتو کیا کرئے؟ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھول گئے اور دو رکعتوںپر سلامپ ھیر دیا تو ذوالشمالین نے آپ سے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا نماز کم ہوگئی یا آپ بھول گئے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے پوچھا: ’’کیا ذوالیدین درست کہہ رہا ہے؟‘‘ انھوں نے کہا: ہاں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور نماز مکمل فرمائی
تشریح : حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: روایات کے ظاہر سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس واقعہ میں حاضر تھے جبکہ امام طحاوی رحمہ اللہ نے اسے مجاز پر محمول کیا ہے۔ وہ فرماتے ہی کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے اس قول ’’ہمیں نماز پڑھائی‘‘ کا مطلب ہے کہ مسلمانوں کو نماز پڑھائی۔ ان کی اس توجیہ کی وجہ امام زہری رحمہ اللہ کا یہ قول ہے کہ صاحب قصہ ذوالشمالین بدر کے دن شہید ہوگئے تھے، لہٰذا یہ واقعہ غزوئہ بدر سے پہلے کا ہے جبکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ غزوۂ بدر کے پانچ سال بعد اسلام لائے۔ لیکن ائمہ حدیث کا اتفاق ہے کہ اس میں امام زہری رحمہ اللہ کو وہم ہوا ہے جیسا کہ ابن عبدالبر وغیرہ نے یہ قول نقل کیا ہے، وہ اسے ذوالشمالین کا قصہ قرار دیتے ہیں لیکن ذوالشمالین تو بدر کے دن شہید ہوگئے تھے، ان کا تعلق بنو خزاعہ سے تھا اور ان کا نام عمیر بن عبد عمرو تھا اور ذوالیدین بنو سلیم کے فرد تھے، ان کا نام خرباق تھا اور وہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد لمبا عرصہ حیات رہے۔ صحیح مسلم میں ابو سلمہ کے واسطے سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایات کے الفاظ اس طرح ہیں: [فقام رجل من بني سلیم] ’’بنو سلیم کا ایک آدمی کھڑا ہوا۔‘‘ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث: ۵۷۳) اور زہری کے واسطے سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے الفاظ ہیں: [فقام ذوالشمالین] ’’ذوالشمالین کھڑا ہوا۔‘‘ حالانکہ وہ جنگ بدر میں شہید کر دیے گئے تھے۔ اسی وجہ سے انھوں نے اسے جنگ بدر سے پہلے کا واقعہ قرار دیا ہے۔ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ یہ دو واقعات ہیں: پہلا ذوالشمالین (عمیر بن عبد عمرو) اور دوسرا ذوالیدین (خرباق) کا۔ پہلے واقعے کو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مرسل بیان کیا ہے اور دوسرے میں وہ خود حاضر تھے۔ جمع و تطبیق کی خاطر اس کا بھی احتمال ہے۔ اور اس کے متعلق ایک قول یہ بھی ہے کہ اس اشتباہ کی وجہ یہ ہے کہ آپ کبھی ذوالشمالین کو ذوالیدین کہہ لیتے تھے اور کبھی ذوالیدین کو ذوالشمالین کہہ لیتے تھے۔ لیکن اس قول کی بنیاد کمزور ہے، نیز امام طحاوی رحمہ اللہ کا اسے مجاز پر محمول کرنا درست معلوم نہیں ہوتا کیونکہ صحیح مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے صریح الفاظ منقول ہیں: [بینما أنا اصلی مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم …………] ’’ایک دفعہ میں نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی………‘‘ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث: ۵۷۳) اور کبار محدثین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ذوالشمالین رضی اللہ عنہ ذوالیدین رضی اللہ عنہ کے علاوہ دوسرے آدمی ہیں۔ اسی بات کی صراحت امام شافعی رحمہ اللہ نے ’’اختلاف الحدیث‘‘ میں کی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میرے نزدیک راجح یہی ہے کہ یہ ایک ہی واقعہ ہے اگرچہ الفاظ کے مختلف ہونے کی وجہ سے امام ابن خزیمہ وغیرہ کا رجحان تعدد واقعات کی طرف ہے کیونکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ آپ نے دو رکعتوں کے بعد سلام پھیرا، پھر مسجد میں ایک لکڑی کی طرف کھڑے ہوگئے اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ آپ نے تین رکعتوں کے بعد سلام پھیرا، پھر آپ گھر چلے گئے۔ مزید دیکھیے: (فتح الباري: ۳/۱۲۶، ۱۳۱، ۱۳۲، تحت حدیث: ۱۲۲۷، ۱۲۲۹) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: روایات کے ظاہر سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس واقعہ میں حاضر تھے جبکہ امام طحاوی رحمہ اللہ نے اسے مجاز پر محمول کیا ہے۔ وہ فرماتے ہی کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے اس قول ’’ہمیں نماز پڑھائی‘‘ کا مطلب ہے کہ مسلمانوں کو نماز پڑھائی۔ ان کی اس توجیہ کی وجہ امام زہری رحمہ اللہ کا یہ قول ہے کہ صاحب قصہ ذوالشمالین بدر کے دن شہید ہوگئے تھے، لہٰذا یہ واقعہ غزوئہ بدر سے پہلے کا ہے جبکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ غزوۂ بدر کے پانچ سال بعد اسلام لائے۔ لیکن ائمہ حدیث کا اتفاق ہے کہ اس میں امام زہری رحمہ اللہ کو وہم ہوا ہے جیسا کہ ابن عبدالبر وغیرہ نے یہ قول نقل کیا ہے، وہ اسے ذوالشمالین کا قصہ قرار دیتے ہیں لیکن ذوالشمالین تو بدر کے دن شہید ہوگئے تھے، ان کا تعلق بنو خزاعہ سے تھا اور ان کا نام عمیر بن عبد عمرو تھا اور ذوالیدین بنو سلیم کے فرد تھے، ان کا نام خرباق تھا اور وہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد لمبا عرصہ حیات رہے۔ صحیح مسلم میں ابو سلمہ کے واسطے سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایات کے الفاظ اس طرح ہیں: [فقام رجل من بني سلیم] ’’بنو سلیم کا ایک آدمی کھڑا ہوا۔‘‘ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث: ۵۷۳) اور زہری کے واسطے سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے الفاظ ہیں: [فقام ذوالشمالین] ’’ذوالشمالین کھڑا ہوا۔‘‘ حالانکہ وہ جنگ بدر میں شہید کر دیے گئے تھے۔ اسی وجہ سے انھوں نے اسے جنگ بدر سے پہلے کا واقعہ قرار دیا ہے۔ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ یہ دو واقعات ہیں: پہلا ذوالشمالین (عمیر بن عبد عمرو) اور دوسرا ذوالیدین (خرباق) کا۔ پہلے واقعے کو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مرسل بیان کیا ہے اور دوسرے میں وہ خود حاضر تھے۔ جمع و تطبیق کی خاطر اس کا بھی احتمال ہے۔ اور اس کے متعلق ایک قول یہ بھی ہے کہ اس اشتباہ کی وجہ یہ ہے کہ آپ کبھی ذوالشمالین کو ذوالیدین کہہ لیتے تھے اور کبھی ذوالیدین کو ذوالشمالین کہہ لیتے تھے۔ لیکن اس قول کی بنیاد کمزور ہے، نیز امام طحاوی رحمہ اللہ کا اسے مجاز پر محمول کرنا درست معلوم نہیں ہوتا کیونکہ صحیح مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے صریح الفاظ منقول ہیں: [بینما أنا اصلی مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم …………] ’’ایک دفعہ میں نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی………‘‘ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث: ۵۷۳) اور کبار محدثین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ذوالشمالین رضی اللہ عنہ ذوالیدین رضی اللہ عنہ کے علاوہ دوسرے آدمی ہیں۔ اسی بات کی صراحت امام شافعی رحمہ اللہ نے ’’اختلاف الحدیث‘‘ میں کی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میرے نزدیک راجح یہی ہے کہ یہ ایک ہی واقعہ ہے اگرچہ الفاظ کے مختلف ہونے کی وجہ سے امام ابن خزیمہ وغیرہ کا رجحان تعدد واقعات کی طرف ہے کیونکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ آپ نے دو رکعتوں کے بعد سلام پھیرا، پھر مسجد میں ایک لکڑی کی طرف کھڑے ہوگئے اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ آپ نے تین رکعتوں کے بعد سلام پھیرا، پھر آپ گھر چلے گئے۔ مزید دیکھیے: (فتح الباري: ۳/۱۲۶، ۱۳۱، ۱۳۲، تحت حدیث: ۱۲۲۷، ۱۲۲۹)