سنن النسائي - حدیث 1219

كِتَابُ السَّهْوِ الْكَلَامُ فِي الصَّلَاةِ صحيح أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ قَالَ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ هِلَالِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ قَالَ حَدَّثَنِي عَطَاءُ بْنُ يَسَارٍ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ الْحَكَمِ السَّلَمِيِّ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا حَدِيثُ عَهْدٍ بِجَاهِلِيَّةٍ فَجَاءَ اللَّهُ بِالْإِسْلَامِ وَإِنَّ رِجَالًا مِنَّا يَتَطَيَّرُونَ قَالَ ذَاكَ شَيْءٌ يَجِدُونَهُ فِي صُدُورِهِمْ فَلَا يَصُدَّنَّهُمْ وَرِجَالٌ مِنَّا يَأْتُونَ الْكُهَّانَ قَالَ فَلَا تَأْتُوهُمْ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَرِجَالٌ مِنَّا يَخُطُّونَ قَالَ كَانَ نَبِيٌّ مِنْ الْأَنْبِيَاءِ يَخُطُّ فَمَنْ وَافَقَ خَطُّهُ فَذَاكَ قَالَ وَبَيْنَا أَنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّلَاةِ إِذْ عَطَسَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ فَقُلْتُ يَرْحَمُكَ اللَّهُ فَحَدَّقَنِي الْقَوْمُ بِأَبْصَارِهِمْ فَقُلْتُ وَا ثُكْلَ أُمِّيَاهُ مَا لَكُمْ تَنْظُرُونَ إِلَيَّ قَالَ فَضَرَبَ الْقَوْمُ بِأَيْدِيهِمْ عَلَى أَفْخَاذِهِمْ فَلَمَّا رَأَيْتُهُمْ يُسَكِّتُونِي لَكِنِّي سَكَتُّ فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَانِي بِأَبِي وَأُمِّي هُوَ مَا ضَرَبَنِي وَلَا كَهَرَنِي وَلَا سَبَّنِي مَا رَأَيْتُ مُعَلِّمًا قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ أَحْسَنَ تَعْلِيمًا مِنْهُ قَالَ إِنَّ صَلَاتَنَا هَذِهِ لَا يَصْلُحُ فِيهَا شَيْءٌ مِنْ كَلَامِ النَّاسِ إِنَّمَا هُوَ التَّسْبِيحُ وَالتَّكْبِيرُ وَتِلَاوَةُ الْقُرْآنِ قَالَ ثُمَّ اطَّلَعْتُ إِلَى غُنَيْمَةٍ لِي تَرْعَاهَا جَارِيَةٌ لِي فِي قِبَلِ أُحُدٍ وَالْجَوَّانِيَّةِ وَإِنِّي اطَّلَعْتُ فَوَجَدْتُ الذِّئْبَ قَدْ ذَهَبَ مِنْهَا بِشَاةٍ وَأَنَا رَجُلٌ مِنْ بَنِي آدَمَ آسَفُ كَمَا يَأْسَفُونَ فَصَكَكْتُهَا صَكَّةً ثُمَّ انْصَرَفْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ فَعَظَّمَ ذَلِكَ عَلَيَّ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلَا أَعْتِقُهَا قَالَ ادْعُهَا فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْنَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ قَالَتْ فِي السَّمَاءِ قَالَ فَمَنْ أَنَا قَالَتْ أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّهَا مُؤْمِنَةٌ فَاعْتِقْهَا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1219

کتاب: نماز میں بھول جانے کے متعلق احکام و مسائل نماز میں (مسنون ادعیہ کے علاوہ )کوئی کلام کرنا حضرت معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم نے جاہلیت ابھی تازہ تازہ چھوڑی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسلام بھیجا ہے۔ ہم میں سے کچھ لوگ بدشگونی پکڑتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’یہ ایک بے حقیقت چیز ہے جسے وہ اپنے دلوں میں محسوس کرتے ہیں، لہٰذا یہ انھیں ان کے کام کاج سے نہ روکے۔‘‘ (میں نے کہا:) اور ہم میں سے کچھ لوگ کاہنوں کے پاس جاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’ان کے پاس مت جایا کرو۔‘‘ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اور ہم میں سے کچھ لوگ خط کھینچتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’نبیوں میں سے ایک نبی (علیہ السلام) خط کھینچا کرتے تھے۔ جو شخص ان کے مطابق خط کھینچے، وہ تو ٹھیک ہے (اور باقی غلط)۔‘‘ معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا کہ ایک آدمی کو چھینک آگئی۔ میں نے [برحمک اللہ] ’’اللہ تعالیٰ تجھ پر رحم فرمائے‘‘ کہہ دیا۔ لوگ مجھے گھور گھور کر دیکھنے لگے۔ میں نے (پریشان ہوکر) کہا: ہائے! میری ماں مجھے گم کرے! (یعنی میں مر جاؤں) تمھیں کیا ہوا ہے کہ تم مجھے اس طرح دیکھ رہے ہو؟ لوگ (بے بسی سے) اپنے رانوں پر ہاتھ مارنے لگے (کیونکہ وہ نماز کی وجہ سے بول نہیں سکتے تھے۔) جب میں نے محسوس کیا کہ وہ مجھے چپ کرا رہے ہیں تو آخر میں چپ ہوگیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو مجھے بلایا۔ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں! آپ نے مجھے مارا، نہ جھڑکا، نہ برا بھلا کہا۔ واللہ! میں نے آپ سے پہلے یا بعد کوئی استاد آپ سے زیادہ اچھے انداز میں تعلیم دینے والا نہیں دیکھا۔ آپ نے (شفقت سے) فرمایا: ’’ہماری اس نماز میں لوگوں کی کسی قسم کی بات کرنا جائز اور درست نہیں۔ نماز تو صرف تسبیحات، تکبیرات اور تلاوت قرآن کا نام ہے۔‘‘ حضرت معاویہ نے کہا: پھر ایک دفعہ میں اپنی کچھ بکریاں دیکھنے گیا جنھیں میری ایک لونڈی جبل احد اور جوانیہ کی طرف چرایا کرتی تھی۔ میں نے اچھی طرح جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ ایک بکری کو بھیڑیا لے گیا ہے، میں بھی اولاد آدم میں سے ایک آدمی تھا، مجھے غصہ آ گیا جس طرح لوگوں کو غصہ آتا ہے۔ میں نے اسے تھپڑ مار دیا۔ پھر (مجھے ندامت ہوئی تو) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور آپ کو سارا واقعہ بتایا۔ آپ نے اسے میری بہت بڑی غلطی قرار دیا تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا میں اسے آزاد ہی نہ کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ’’اسے میرے پاس بلاؤ۔‘‘ (میں اسے لایا تو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: ’’اللہ تعالیٰ کہاں ہے؟‘‘ اس نے کہا: آسمان میں (یعنی اوپر)۔ آپ نے فرمایا: ’’میں کون ہوں؟‘‘ اس نے کہا: آپ اللہ کے رسول ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’یہ مومنہ عورت ہے، اسے آزاد کر دو۔‘‘
تشریح : (۱) جاہلیت سے مراد اسلام سے ماقبل کے رواج ہیں۔ عموماً ان کی بنیاد جاہلیت پر تھی، لہٰذا انھیں جاہلیت کہا گیا ہے۔ (۲) ’’بے حقیقت چیز ہے۔‘‘ یعنی اس کی کوئی بنیاد نہیں، صرف ان کا دلی وہم ہے۔ بعض نے اس جملے کے یہ معنی بھی کیے ہیں کہ ’’ایسے خیالات تو دل میںآ ہی جایا کرتے ہیں، اس میں کوئی گناہ نہیں۔ ہاں: ایسے خیالات کی بنا پر وہ اپنے کام کاج سے نہ رکیں۔‘‘ (۲) ’’کاہن‘‘ غیب کی باتیں بتانے والے کو کہا جاتا ہے، خواہ وہ جنوں کی مدد سے بتائیں یا نجوم و خطوط اور لکیروں کی مدد سے یا اٹکل اور ظن و تخمین سے۔ چونکہ ان کی بات کی صحت یقینی نہیں ہوتی، لہٰذا ان سے پوچھنا اور ان کی بات پر یقین کرنا شریعت اسلامیہ میں منع ہے۔ ان کی غلط باتیں بسا اوقات باہمی تعلقات کی خرابی اور فساد کا موجب بنتی ہیں۔ عقیدہ الگ خراب ہوتا ہے، البتہ کبھی فراست و ذہانت کی بنا پر صحیح نتیجے تک پہنچ جانے والے کو بھی کاہن کہہ دیا جاتا ہے، حالانکہ یہ مذموم نہیں، خصوصاً جب کہ ان کی بات دوسرے دلائل سے بالکل صحیح ثابت ہو جائے۔ جیسے حضرت سلیمان علیہ السلام، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت عمر و علی رضی اللہ عنہما اور قاضی شریح و ایاس رحمہا اللہ وغیرہ کے واقعات مشہور ہیں۔ لیکن فراست والی بات بھی اسی وقت صحیح ہوگی جب بعد میں وہ صحیح ثابت ہو جائے ورنہ کسی صاحب فراست کی بات کو آنکھیں بند کرکے تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ بہرحال کہانت حرام ہے اور اسے ماننا بھی، نیز کہانت کی طرح بدشگونی لینا بھی حرام ہے۔ (۴) ’’ایک نبی خط کھینچا کرتے تھے۔‘‘ واللہ اعلم وہ کیسے خط کھینچتے تھے؟ کیا حساب تھا؟ کہیں صراحت نہیں ہے، لہٰذا شریعت اسلامیہ میں یہ قطعاً ممنوع ہے۔ (۵) ’’نماز میں لوگوں کی کسی قسم کی بات کرنا درست نہیں‘‘ مذکورہ صحابی اس وقت اس مسئلے سے واقف نہیں تھے، لہٰذا انھیں معذور سمجھا اور قضا کا حکم نہیں دیا ورنہ آپ کے الفاظ صراحتاً ثابت کر رہے ہیں کہ اس صورت میں نماز نہ ہوگی۔ (۶) ’’جوانیہ‘‘ مدینہ منورہ کے شمال میں احد پہاڑ کے قریب ایک جگہ کا نام ہے۔ (۷) ’’بڑی غلطی‘‘ کیونکہ وہ لوگنڈی بھیڑیے کے سامنے بے بس تھی اور بے قصور تھی۔ (۸) ’’آسمان میں‘‘ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی سے پوچھا جا سکتا ہے، اللہ تعالیٰ کہاں ہے؟ اور جواب میں آسمان یا عرش کا نام لیا جا سکتا ہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ کی کوئی توہین نہیں ہوگی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف اوپر کو اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے عرش پر مستوی ہونے کو بیان کیا جا سکتا ہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ نہ تو کسی جگہ کا محتاج ہو جائے گا نہ اس میں مقید۔ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ میں اس کے نظائر موجود ہیں، مثلاً: ارشاد باری ہے: (ام امنتم من فی السماء) (الملک ۱۷:۶۷) اسی طرح (الرحمن علی العرشن استوی) (طہ ۵:۲۰) نیز حدیث شریف میں ہے: [ارحموا أھل الارض یرحمکم من في السمآء] (سنن أبي داود، الأدب، حدیث: ۴۹۴۱) بعض لوگ جنھیں اللہ تعالیٰ کی فکر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بڑھ کر ہے، اس قسم کی عبارات کو اللہ تعالیٰ کے حق میں جائز نہیں سمجھتے مگر یہ ان کی بے علمی ہے۔ ان مسائل میں سلف صالحین (صحابہ و تابعین) اور محدثین کا مسلک ہی صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات جو قرآن مجید اور احادیث صحیحیہ و صریح سے ثابت ہیں، انھیں بلاجھجک مانا جائے، بولا جائے اور کسی قسم کی تاویل نہ کی جائے، نہ ان میں بحث کی جائے کیونکہ یہ چیزیں انسان کی عقل سے ماوراء ہیں۔ ان کی حقیقت اللہ عزوجل کے سپرد کر دی جائے۔ تشبیہ دی جائے نہ انکار کیا جائے، بلکہ قیامت کا انتظار کیا جائے کہ اس دن ہر چیز واضح ہو جائے گی، آنکھوں کے سامنے ہوگی، کہیں اس دن ندامت نہ ہو۔ (۹) ’’یہ مومنہ عورت ہے۔‘‘ معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی کفارے وغیرہ میں غلام آزاد کرنا ہو تو وہ مومن ہونا چاہیے۔ قرآن مجید میں بھی بغض مقامات پر قید ہے: (تحریر رقبۃ مومنۃ) (النسآء ۹۲:۴) باقی مقامات پر بھی یہ قید معتبر ہوگی۔ نفل آزادی میں بھی مومن کو آزاد کرنا افضل ہے، ضروری نہیں۔ (۱۰) خادموں اور ملازموں کے ساتھ نرمی و شفقت سے پیش آنا چاہیے اگر کبھی کبھار سختی ہو جائے تو ان کی دلجوئی بھی کرنی چاہیے (۱) جاہلیت سے مراد اسلام سے ماقبل کے رواج ہیں۔ عموماً ان کی بنیاد جاہلیت پر تھی، لہٰذا انھیں جاہلیت کہا گیا ہے۔ (۲) ’’بے حقیقت چیز ہے۔‘‘ یعنی اس کی کوئی بنیاد نہیں، صرف ان کا دلی وہم ہے۔ بعض نے اس جملے کے یہ معنی بھی کیے ہیں کہ ’’ایسے خیالات تو دل میںآ ہی جایا کرتے ہیں، اس میں کوئی گناہ نہیں۔ ہاں: ایسے خیالات کی بنا پر وہ اپنے کام کاج سے نہ رکیں۔‘‘ (۲) ’’کاہن‘‘ غیب کی باتیں بتانے والے کو کہا جاتا ہے، خواہ وہ جنوں کی مدد سے بتائیں یا نجوم و خطوط اور لکیروں کی مدد سے یا اٹکل اور ظن و تخمین سے۔ چونکہ ان کی بات کی صحت یقینی نہیں ہوتی، لہٰذا ان سے پوچھنا اور ان کی بات پر یقین کرنا شریعت اسلامیہ میں منع ہے۔ ان کی غلط باتیں بسا اوقات باہمی تعلقات کی خرابی اور فساد کا موجب بنتی ہیں۔ عقیدہ الگ خراب ہوتا ہے، البتہ کبھی فراست و ذہانت کی بنا پر صحیح نتیجے تک پہنچ جانے والے کو بھی کاہن کہہ دیا جاتا ہے، حالانکہ یہ مذموم نہیں، خصوصاً جب کہ ان کی بات دوسرے دلائل سے بالکل صحیح ثابت ہو جائے۔ جیسے حضرت سلیمان علیہ السلام، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت عمر و علی رضی اللہ عنہما اور قاضی شریح و ایاس رحمہا اللہ وغیرہ کے واقعات مشہور ہیں۔ لیکن فراست والی بات بھی اسی وقت صحیح ہوگی جب بعد میں وہ صحیح ثابت ہو جائے ورنہ کسی صاحب فراست کی بات کو آنکھیں بند کرکے تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ بہرحال کہانت حرام ہے اور اسے ماننا بھی، نیز کہانت کی طرح بدشگونی لینا بھی حرام ہے۔ (۴) ’’ایک نبی خط کھینچا کرتے تھے۔‘‘ واللہ اعلم وہ کیسے خط کھینچتے تھے؟ کیا حساب تھا؟ کہیں صراحت نہیں ہے، لہٰذا شریعت اسلامیہ میں یہ قطعاً ممنوع ہے۔ (۵) ’’نماز میں لوگوں کی کسی قسم کی بات کرنا درست نہیں‘‘ مذکورہ صحابی اس وقت اس مسئلے سے واقف نہیں تھے، لہٰذا انھیں معذور سمجھا اور قضا کا حکم نہیں دیا ورنہ آپ کے الفاظ صراحتاً ثابت کر رہے ہیں کہ اس صورت میں نماز نہ ہوگی۔ (۶) ’’جوانیہ‘‘ مدینہ منورہ کے شمال میں احد پہاڑ کے قریب ایک جگہ کا نام ہے۔ (۷) ’’بڑی غلطی‘‘ کیونکہ وہ لوگنڈی بھیڑیے کے سامنے بے بس تھی اور بے قصور تھی۔ (۸) ’’آسمان میں‘‘ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی سے پوچھا جا سکتا ہے، اللہ تعالیٰ کہاں ہے؟ اور جواب میں آسمان یا عرش کا نام لیا جا سکتا ہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ کی کوئی توہین نہیں ہوگی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف اوپر کو اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے عرش پر مستوی ہونے کو بیان کیا جا سکتا ہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ نہ تو کسی جگہ کا محتاج ہو جائے گا نہ اس میں مقید۔ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ میں اس کے نظائر موجود ہیں، مثلاً: ارشاد باری ہے: (ام امنتم من فی السماء) (الملک ۱۷:۶۷) اسی طرح (الرحمن علی العرشن استوی) (طہ ۵:۲۰) نیز حدیث شریف میں ہے: [ارحموا أھل الارض یرحمکم من في السمآء] (سنن أبي داود، الأدب، حدیث: ۴۹۴۱) بعض لوگ جنھیں اللہ تعالیٰ کی فکر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بڑھ کر ہے، اس قسم کی عبارات کو اللہ تعالیٰ کے حق میں جائز نہیں سمجھتے مگر یہ ان کی بے علمی ہے۔ ان مسائل میں سلف صالحین (صحابہ و تابعین) اور محدثین کا مسلک ہی صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات جو قرآن مجید اور احادیث صحیحیہ و صریح سے ثابت ہیں، انھیں بلاجھجک مانا جائے، بولا جائے اور کسی قسم کی تاویل نہ کی جائے، نہ ان میں بحث کی جائے کیونکہ یہ چیزیں انسان کی عقل سے ماوراء ہیں۔ ان کی حقیقت اللہ عزوجل کے سپرد کر دی جائے۔ تشبیہ دی جائے نہ انکار کیا جائے، بلکہ قیامت کا انتظار کیا جائے کہ اس دن ہر چیز واضح ہو جائے گی، آنکھوں کے سامنے ہوگی، کہیں اس دن ندامت نہ ہو۔ (۹) ’’یہ مومنہ عورت ہے۔‘‘ معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی کفارے وغیرہ میں غلام آزاد کرنا ہو تو وہ مومن ہونا چاہیے۔ قرآن مجید میں بھی بغض مقامات پر قید ہے: (تحریر رقبۃ مومنۃ) (النسآء ۹۲:۴) باقی مقامات پر بھی یہ قید معتبر ہوگی۔ نفل آزادی میں بھی مومن کو آزاد کرنا افضل ہے، ضروری نہیں۔ (۱۰) خادموں اور ملازموں کے ساتھ نرمی و شفقت سے پیش آنا چاہیے اگر کبھی کبھار سختی ہو جائے تو ان کی دلجوئی بھی کرنی چاہیے