سنن النسائي - حدیث 1217

كِتَابُ السَّهْوِ الْكَلَامُ فِي الصَّلَاةِ صحيح أَخْبَرَنَا كَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ عَنْ الزُّبَيْدِيِّ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الصَّلَاةِ وَقُمْنَا مَعَهُ فَقَالَ أَعْرَابِيٌّ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ اللَّهُمَّ ارْحَمْنِي وَمُحَمَّدًا وَلَا تَرْحَمْ مَعَنَا أَحَدًا فَلَمَّا سَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِلْأَعْرَابِيِّ لَقَدْ تَحَجَّرْتَ وَاسِعًا يُرِيدُ رَحْمَةَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1217

کتاب: نماز میں بھول جانے کے متعلق احکام و مسائل نماز میں (مسنون ادعیہ کے علاوہ )کوئی کلام کرنا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے۔ ہم بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہوئے ایک اعرابی نے دوران نماز میں کہا: [اللھم! ارحمنی…………] ’’اے اللہ! مجھ پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رحم فرما اور ہمارے علاوہ کسی اور پر رحم نہ فرما۔‘‘ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو اس اعرابی سے فرمایا: ’’تو نے ایک وسیع چیز کو تنگ کر دیا۔‘‘ آپ کا مقصد تھا کہ اللہ کی رحمت تو بہت وسیع ہے۔
تشریح : (۱)اعرابی کا یہ کلام کسی انسان سے کلام نہیں تھا کہ اس سے نماز میں نقص پڑتا۔ یہ مسنون اور مقررہ دعاؤں میں سے نہیں ہے، اسی لیے باب کے عنوان میں قوسین کے ذریعے سے وضاحت کی گئی ہے۔ باب کا مقصد یہ ہے کہ اس قسم کا کلام اگرچہ نماز میں مناسب نہیں مگر چونکہ اللہ تعالیٰ ہی سے خطاب ہے، لہٰذا اس سے نماز باطل نہ ہوگی۔ ویسے نماز میں مسنون اور منقول دعاؤں سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔ ممکن ہے اپنی طرف سے بنائی ہوئی دعا درست نہ ہو۔ (۲) دعا جامع اور وسعت کی حامل ہونی چاہیے، چنانچہ ایسی دعا کرنا درست نہیں جس میں اللہ تعالیٰ کے وسیع فضل و کرم کو محدود کر دیا جائے۔ (۱)اعرابی کا یہ کلام کسی انسان سے کلام نہیں تھا کہ اس سے نماز میں نقص پڑتا۔ یہ مسنون اور مقررہ دعاؤں میں سے نہیں ہے، اسی لیے باب کے عنوان میں قوسین کے ذریعے سے وضاحت کی گئی ہے۔ باب کا مقصد یہ ہے کہ اس قسم کا کلام اگرچہ نماز میں مناسب نہیں مگر چونکہ اللہ تعالیٰ ہی سے خطاب ہے، لہٰذا اس سے نماز باطل نہ ہوگی۔ ویسے نماز میں مسنون اور منقول دعاؤں سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔ ممکن ہے اپنی طرف سے بنائی ہوئی دعا درست نہ ہو۔ (۲) دعا جامع اور وسعت کی حامل ہونی چاہیے، چنانچہ ایسی دعا کرنا درست نہیں جس میں اللہ تعالیٰ کے وسیع فضل و کرم کو محدود کر دیا جائے۔