سنن النسائي - حدیث 1187

كِتَابُ السَّهْوِ بَاب رَدِّ السَّلَامِ بِالْإِشَارَةِ فِي الصَّلَاةِ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ بُكَيْرٍ عَنْ نَابِلٍ صَاحِبِ الْعَبَاءِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ صُهَيْبٍ صَاحِبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَرَرْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ عَلَيَّ إِشَارَةً وَلَا أَعْلَمُ إِلَّا أَنَّهُ قَالَ بِإِصْبَعِهِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1187

کتاب: نماز میں بھول جانے کے متعلق احکام و مسائل نماز میں اسلام کا جواب اشارے سے دینا صحابیٔ رسول حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انھوں نے فرمایا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا جب کہ آپ نماز پڑھ رہے تھے۔ میں نے آپ کو سلام کہا تو آپ نے مجھے انگلی کے اشارے سے جواب دیا۔
تشریح : اس باب کی روایات کا حاصل یہ ہے کہ ابتدائے اسلام میں نماز میں حسب ضرورت کلام کرنے کی اجازت تھی، اس کے پیش نظر بعض صحابہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کہ آپ نماز پڑھ رہے تھے، سلام کیا، لیکن اس وقت نماز میں کلام کرنے سے روکا جا چکا تھا، اس لیے آپ نے لفظاً سلام کا جواب نہیں دیا، صرف اشارے سے سلام کا جواب دیا اور سلام پھیرنے کے بعد آپ نےب عض صحابہ سے اتعذار بھی کیا کہ آپ نے لفظاً سلام کا جواب اس لیے نہیں دیا کہ کہ اب نماز میں کلام کرنا ممنوع ہوچکا ہے، تاہم اس کے باوجود آپ نے اشارے سے جواب دیا۔ فقہائے محدثین اور شارحین حدیث نے ان احادیث سے یہی استدلال کیا ہے کہ نمازی کو سلام کرنا جائز ہے، اسے ممنوع قرار دینا صریح احادیث کے خلاف ہے۔ دیکھیے: (شرح صحیح مسلم للنووي، باب تحریم الکلام: ۵/۳۷، وسبل السلام، باب شروط الصلاۃ: ۱/۲۶۴، و عون المعبود، باب رد السلام: ۲/۲۹۲، والسنن الکبریٰ للبیھقی، باب الاشارۃ برد السلام، و باب کیفیۃ الاشارۃ بالید: ۲/۲۵۸-۲۶۰، وغیرھا) باقی رہا یہ مسئلہ کہ جواب میں اشارہ کس طرح کیا جائے گا؟ تو احادیث ہی میں اس کی چار شکلیں مذکور ہیں، ہتھیلی کے ساتھ، ہاتھ کے ساتھ، انگلی کے ساتھ اور سر کے ساتھ، اس لیے یہ ساری شکلیں جائز ہیں۔ دیکھیے (عون المعبود، باب رد السلام: ۲/۲۹۲) اس باب کی روایات کا حاصل یہ ہے کہ ابتدائے اسلام میں نماز میں حسب ضرورت کلام کرنے کی اجازت تھی، اس کے پیش نظر بعض صحابہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کہ آپ نماز پڑھ رہے تھے، سلام کیا، لیکن اس وقت نماز میں کلام کرنے سے روکا جا چکا تھا، اس لیے آپ نے لفظاً سلام کا جواب نہیں دیا، صرف اشارے سے سلام کا جواب دیا اور سلام پھیرنے کے بعد آپ نےب عض صحابہ سے اتعذار بھی کیا کہ آپ نے لفظاً سلام کا جواب اس لیے نہیں دیا کہ کہ اب نماز میں کلام کرنا ممنوع ہوچکا ہے، تاہم اس کے باوجود آپ نے اشارے سے جواب دیا۔ فقہائے محدثین اور شارحین حدیث نے ان احادیث سے یہی استدلال کیا ہے کہ نمازی کو سلام کرنا جائز ہے، اسے ممنوع قرار دینا صریح احادیث کے خلاف ہے۔ دیکھیے: (شرح صحیح مسلم للنووي، باب تحریم الکلام: ۵/۳۷، وسبل السلام، باب شروط الصلاۃ: ۱/۲۶۴، و عون المعبود، باب رد السلام: ۲/۲۹۲، والسنن الکبریٰ للبیھقی، باب الاشارۃ برد السلام، و باب کیفیۃ الاشارۃ بالید: ۲/۲۵۸-۲۶۰، وغیرھا) باقی رہا یہ مسئلہ کہ جواب میں اشارہ کس طرح کیا جائے گا؟ تو احادیث ہی میں اس کی چار شکلیں مذکور ہیں، ہتھیلی کے ساتھ، ہاتھ کے ساتھ، انگلی کے ساتھ اور سر کے ساتھ، اس لیے یہ ساری شکلیں جائز ہیں۔ دیکھیے (عون المعبود، باب رد السلام: ۲/۲۹۲)