سنن النسائي - حدیث 1186

كِتَابُ السَّهْوِ بَاب السَّلَامِ بِالْأَيْدِي فِي الصَّلَاةِ صحيح أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ عَنْ مِسْعَرٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ابْنِ الْقِبْطِيَّةِ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ كُنَّا نُصَلِّي خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنُسَلِّمُ بِأَيْدِينَا فَقَالَ مَا بَالُ هَؤُلَاءِ يُسَلِّمُونَ بِأَيْدِيهِمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمُسٍ أَمَا يَكْفِي أَحَدُهُمْ أَنْ يَضَعَ يَدَهُ عَلَى فَخِذِهِ ثُمَّ يَقُولَ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1186

کتاب: نماز میں بھول جانے کے متعلق احکام و مسائل نماز میں (اختتام کےموقع پر) ہاتھوں سےسلام کرنا حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انھوں نے فرمایا: ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھتے تھے تو ہاتھوں سے سلام کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا: ’’انھیں کیا ہوا ہے کہ ہاتھوں سے سلام کر رہے ہیں گویا کہ وہ سرکش گھوڑوں کی دمیں ہیں؟ کیا انھیں کافی نہیں کہ اپنے ہاتھ اپنی رانوں پر رکھے رہیں اور (زبان سے) کہہ دیں: [السلام علیکم، السلام علیکم]
تشریح : (۱) پہلی روایت مختصر ہے، اس میں صرف رفع الیدین کا ذکر ہے، یہ دوسری روایت اس کی تفصیل ہے۔ اس میں وضاحت ہے کہ یہ ہاتھ اٹھانا سلام کے وقت تھا۔ ابتدا میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم [السلام علیکم] کہتے وقت ہاتھ بھی اٹھاتے جیسے کسی دور کھڑے آدمی کو زبان کے ساتھ ہاتھ سے بھی سلام کا اشارہ کر دیتے ہیں تاکہ اگر سن نہ سکے تو اشارے سے سمجھ جائے۔ اور یہ بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا اپنا اجتہادی فعل تھا۔ (۲) بعض احناف نے اس واضح صورت حال کو نظر انداز کرکے دونوں حدیثوں کو الگ الگ کر دیا کہ پہلی روایت میں مطلق رفع الیدین پر انکار کیا گیا ہے اور دوسری روایت میں سلام والے رفع الیدین پر، حالانکہ محدثین کا اتفاق ہے کہ یہ دونوں ایک ہی چیز کا بیان ہیں۔ ایک میں اختصار ہے، دوسری میں تفصیل۔ دونوں ایک ہی صحابی سے مروی ہیں۔ سیاق اسی کا مؤید ہے۔ (۳) بعض احناف نے دونوں روایات کو ایک تسلیم کرنے کے باوجود یہ کہا ہے: ’’بہرحال ہاتھ اٹھانے پر آپ کا اظہار ناراضی اور سکون کا حکم دینا رکوع وغیرہ کے رفع الیدین کے بھی خلاف ہے کیونکہ وہ بھی تو سکون کے منافی ہے۔‘‘ ادب کے ساتھ گزارش ہے کہ آپ کے یہ الفاظ اور اظہارِ ناراضی تکبیر تحریمہ، قنوت وتر اور عیدین کے رفع الیدین کے خلاف کیوں نہیں؟ کیا وہ سکون کے منافی نہیں؟ اگر آپ کے یہ الفاظ رکوع وغیرہ کے رفع الیدین کو منسوخ کرتے ہیں تو حضرات اپنی بھی خیر منائیے۔ یہ الفاظ مندرجہ بالا رفع الیدین (جن کے آپ قائل و فاعل ہیں) کو بھی منسوخ کرتے ہیں، پھر تو رفع الیدین کلیتاً منسوخ ہے۔ جہاں وہ تین وہاں ہمارے تین۔ اللہ اللہ خیرسلا۔ (۴) حقیقت یہ ہے کہ یہ الفاظ صرف سلام کے وقت دائیں طرف ہاتھ اٹھانے (نہ کہ قبلہ رخ) اور بائیں طرف سلام کہتے وقت ہاتھ بائیں طرف اٹھانے کے خلاف ہیں۔ انھی ہاتھ اٹھانے کو گھوڑوں کی دم اٹھانے سے تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ رکوع وغیرہ کے رفع الیدین کو تو خود احناف بھی سنت سمجھتے ہیں، صرف منسوخ سمجھتے ہیں۔ گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم پہلے کیا کرتے تھے، بعد می منسوخ ہوگیا۔ کیا وہ رفع الیدین جو آپ کی پیروی میں کیے گئے، ان الفاظ کا مصداق بن سکتے ہیں؟ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہی فعل کو سرکش گھوڑوں کی دم ہلانے سے تشبیہ دے سکتے ہیں؟ کلا واللہ! ہر منصف مزاج شخص ان روایات کا وہی مطلب سمجھے گا جو محدثین نے قرار دیا ہے کہ یہ انکار صرف سلام کے رفع الیدین پر ہے جو قبلہ رخ نہیں تھا، یعنی مسنون رفع الیدین کے مشابہ بھی نہیں تھا بلکہ یہ دائیں بائیں ہاتھ اٹھانا تھا جس طرح گھوڑا کبھی دائیں اور کبھی بائیں دم ہلاتا ہے۔ (رفع الیدین کی مزید تفصیل کے لیے دیکھیے، احادیث: ۸۷۷ - ۸۸۰، ۱۰۲۵، ۱۰۲۷) (۱) پہلی روایت مختصر ہے، اس میں صرف رفع الیدین کا ذکر ہے، یہ دوسری روایت اس کی تفصیل ہے۔ اس میں وضاحت ہے کہ یہ ہاتھ اٹھانا سلام کے وقت تھا۔ ابتدا میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم [السلام علیکم] کہتے وقت ہاتھ بھی اٹھاتے جیسے کسی دور کھڑے آدمی کو زبان کے ساتھ ہاتھ سے بھی سلام کا اشارہ کر دیتے ہیں تاکہ اگر سن نہ سکے تو اشارے سے سمجھ جائے۔ اور یہ بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا اپنا اجتہادی فعل تھا۔ (۲) بعض احناف نے اس واضح صورت حال کو نظر انداز کرکے دونوں حدیثوں کو الگ الگ کر دیا کہ پہلی روایت میں مطلق رفع الیدین پر انکار کیا گیا ہے اور دوسری روایت میں سلام والے رفع الیدین پر، حالانکہ محدثین کا اتفاق ہے کہ یہ دونوں ایک ہی چیز کا بیان ہیں۔ ایک میں اختصار ہے، دوسری میں تفصیل۔ دونوں ایک ہی صحابی سے مروی ہیں۔ سیاق اسی کا مؤید ہے۔ (۳) بعض احناف نے دونوں روایات کو ایک تسلیم کرنے کے باوجود یہ کہا ہے: ’’بہرحال ہاتھ اٹھانے پر آپ کا اظہار ناراضی اور سکون کا حکم دینا رکوع وغیرہ کے رفع الیدین کے بھی خلاف ہے کیونکہ وہ بھی تو سکون کے منافی ہے۔‘‘ ادب کے ساتھ گزارش ہے کہ آپ کے یہ الفاظ اور اظہارِ ناراضی تکبیر تحریمہ، قنوت وتر اور عیدین کے رفع الیدین کے خلاف کیوں نہیں؟ کیا وہ سکون کے منافی نہیں؟ اگر آپ کے یہ الفاظ رکوع وغیرہ کے رفع الیدین کو منسوخ کرتے ہیں تو حضرات اپنی بھی خیر منائیے۔ یہ الفاظ مندرجہ بالا رفع الیدین (جن کے آپ قائل و فاعل ہیں) کو بھی منسوخ کرتے ہیں، پھر تو رفع الیدین کلیتاً منسوخ ہے۔ جہاں وہ تین وہاں ہمارے تین۔ اللہ اللہ خیرسلا۔ (۴) حقیقت یہ ہے کہ یہ الفاظ صرف سلام کے وقت دائیں طرف ہاتھ اٹھانے (نہ کہ قبلہ رخ) اور بائیں طرف سلام کہتے وقت ہاتھ بائیں طرف اٹھانے کے خلاف ہیں۔ انھی ہاتھ اٹھانے کو گھوڑوں کی دم اٹھانے سے تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ رکوع وغیرہ کے رفع الیدین کو تو خود احناف بھی سنت سمجھتے ہیں، صرف منسوخ سمجھتے ہیں۔ گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم پہلے کیا کرتے تھے، بعد می منسوخ ہوگیا۔ کیا وہ رفع الیدین جو آپ کی پیروی میں کیے گئے، ان الفاظ کا مصداق بن سکتے ہیں؟ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہی فعل کو سرکش گھوڑوں کی دم ہلانے سے تشبیہ دے سکتے ہیں؟ کلا واللہ! ہر منصف مزاج شخص ان روایات کا وہی مطلب سمجھے گا جو محدثین نے قرار دیا ہے کہ یہ انکار صرف سلام کے رفع الیدین پر ہے جو قبلہ رخ نہیں تھا، یعنی مسنون رفع الیدین کے مشابہ بھی نہیں تھا بلکہ یہ دائیں بائیں ہاتھ اٹھانا تھا جس طرح گھوڑا کبھی دائیں اور کبھی بائیں دم ہلاتا ہے۔ (رفع الیدین کی مزید تفصیل کے لیے دیکھیے، احادیث: ۸۷۷ - ۸۸۰، ۱۰۲۵، ۱۰۲۷)