كِتَابُ التَّطْبِيقِ بَاب تَرْكِ التَّشَهُّدِ الْأَوَّلِ صحيح أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ سُلَيْمَانُ بْنُ سَيْفٍ قَالَ حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ عَنْ ابْنِ بُحَيْنَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى فَقَامَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ فَسَبَّحُوا فَمَضَى فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ صَلَاتِهِ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ ثُمَّ سَلَّمَ
کتاب: رکوع کے دوران میں تطبیق کا بیان
پہلے تشہد (فعدے) کا ترک کرنا
حضرت مالک ابن بحینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک دفعہ) نماز پڑھی تو دو رکعتوں کے بعد (بھول کر) کھڑے ہوگئے۔ لوگوں نے سبحان اللہ کہا مگر آپ جاری رہے (دوبارہ نہ بیٹھے) پھر جب نماز سے فارغ ہوئے تو دو سجدے کیے۔ پھر سلام پھیرا۔
تشریح :
(۱) اس واقعے سے جمہور علماء نے استدلال کیا ہے کہ پہلا تشہد فرض نہیں۔ اگر فرض ہوتا تو صحابہ کے توجہ دلانے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوٹ آتے مگر آپ کا آگے جاری رہنا اور پخر میں سجدۂ سہو کرنا دلیل ہے کہ یہ فرض نہیں، جبکہ بعض علمائے محققین کے نزدیک پہلا تشہد بھی واجب ہے۔ ہاں اگر بھول کر رہ جائے تو اس واجب کی سجودِ سہو سے تلافی ہوسکتی ہے جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث سے ظاہر ہوتا ہے، نیز سنن ابوداود میں اس کا حکم منقول ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’مسیئی الصلاۃ‘‘ کو فرمایا تھا: [جلست فی وسط الصلاۃ فاطمئن و افترش فخذک الیسری ثم تشھد……] ’’جب تم نماز کے دوران میں بیٹھو تو اطمینان سے بیٹھو اور اپنی بائیں ران بچھا لو، پھر تشہد پڑھو……‘‘ (سنن أبي داود، الصلاۃ، حدیث: ۸۶۰) اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ثم اذا قمت فمئل ذلک حتی تفرغ من صلاتک] ’’پھر جب کھڑے ہو تو پہلے کی طرح کرو حتی کہ اپنی نماز سے فارغ ہو جاؤ۔‘‘ ائمہ میں سے امام لیث، اسحاق بن راہویہ، مشہور قول کے مطابق امام احمد بھی اسی کے قائل ہیں۔ امام شافعی کا ایک قول بھی یہی ہے، اور احناف سے بھی وجوب کی ایک روایت ملتی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (فتح الباری: ۳۱۰/۲، تحت حدیث: ۸۲۹، و ذخیرۃ العقبی، شرح سنن النسائي: ۱۴۴،۱۴۳/۱۱) (۲) اگر کوئی رکن رہ جائے، مثلاً: رکوع تو واپس لوٹنا ضروری ہے یا آخر میں پوری رکعت دہرانی پڑے گی۔ البتہ یہ اس وقت ہے جب بھول کر اٹھ کھڑا ہوا۔ اگر کوئی بھول کر سیدھا کھڑا ہو جائے اور اسے یاد آ جائے تو واپس نہ لوٹے بلکہ آخر میں سہو کے دو سجدے کرلے، پھر سلام پھیرے اور اگر ابھی تھوڑا سا اٹھا تھا، یعنی بیٹھنے کے قریب تھا، ابھی ٹانگیں سیدھی نہیں ہوئی تھیں کہ یاد آگیا تو بیٹھ جائے اور تشہد پڑھے۔ سجدۂ سہو کی ضرورت نہیں، البتہ اگر آخری تشہد بھول کر کھڑا وہ جائے تو جب بھی یاد آئے، واپس لوٹے اور پخر میں سجدۂ سہو کرے۔ (۲) اس میں احناف کا رد ہے جو کہ ایک سلام کے بعد سجدۂ سہو کرتے ہیں۔ (۳) مقتدی بھی امام کے ساتھ سجدۂ سہو کرے گا اگرچہ مقتدی کو سہو نہ ہوا ہو، صرف امام ہی کو ہوا ہو۔ (۴) سجدۂ سہو کے بعد تشہد نہیں۔ (سججود سہو کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو کتاب السہو کا ابتدائیہ) (۵) بتقاضائے بشریت انبیاء علیہم السلام کوبھی سہو اور نسیان لاحق ہوا ہے لیکن وحی کے پہنچانے میں قطعا نہیں۔
(۱) اس واقعے سے جمہور علماء نے استدلال کیا ہے کہ پہلا تشہد فرض نہیں۔ اگر فرض ہوتا تو صحابہ کے توجہ دلانے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوٹ آتے مگر آپ کا آگے جاری رہنا اور پخر میں سجدۂ سہو کرنا دلیل ہے کہ یہ فرض نہیں، جبکہ بعض علمائے محققین کے نزدیک پہلا تشہد بھی واجب ہے۔ ہاں اگر بھول کر رہ جائے تو اس واجب کی سجودِ سہو سے تلافی ہوسکتی ہے جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث سے ظاہر ہوتا ہے، نیز سنن ابوداود میں اس کا حکم منقول ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’مسیئی الصلاۃ‘‘ کو فرمایا تھا: [جلست فی وسط الصلاۃ فاطمئن و افترش فخذک الیسری ثم تشھد……] ’’جب تم نماز کے دوران میں بیٹھو تو اطمینان سے بیٹھو اور اپنی بائیں ران بچھا لو، پھر تشہد پڑھو……‘‘ (سنن أبي داود، الصلاۃ، حدیث: ۸۶۰) اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ثم اذا قمت فمئل ذلک حتی تفرغ من صلاتک] ’’پھر جب کھڑے ہو تو پہلے کی طرح کرو حتی کہ اپنی نماز سے فارغ ہو جاؤ۔‘‘ ائمہ میں سے امام لیث، اسحاق بن راہویہ، مشہور قول کے مطابق امام احمد بھی اسی کے قائل ہیں۔ امام شافعی کا ایک قول بھی یہی ہے، اور احناف سے بھی وجوب کی ایک روایت ملتی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (فتح الباری: ۳۱۰/۲، تحت حدیث: ۸۲۹، و ذخیرۃ العقبی، شرح سنن النسائي: ۱۴۴،۱۴۳/۱۱) (۲) اگر کوئی رکن رہ جائے، مثلاً: رکوع تو واپس لوٹنا ضروری ہے یا آخر میں پوری رکعت دہرانی پڑے گی۔ البتہ یہ اس وقت ہے جب بھول کر اٹھ کھڑا ہوا۔ اگر کوئی بھول کر سیدھا کھڑا ہو جائے اور اسے یاد آ جائے تو واپس نہ لوٹے بلکہ آخر میں سہو کے دو سجدے کرلے، پھر سلام پھیرے اور اگر ابھی تھوڑا سا اٹھا تھا، یعنی بیٹھنے کے قریب تھا، ابھی ٹانگیں سیدھی نہیں ہوئی تھیں کہ یاد آگیا تو بیٹھ جائے اور تشہد پڑھے۔ سجدۂ سہو کی ضرورت نہیں، البتہ اگر آخری تشہد بھول کر کھڑا وہ جائے تو جب بھی یاد آئے، واپس لوٹے اور پخر میں سجدۂ سہو کرے۔ (۲) اس میں احناف کا رد ہے جو کہ ایک سلام کے بعد سجدۂ سہو کرتے ہیں۔ (۳) مقتدی بھی امام کے ساتھ سجدۂ سہو کرے گا اگرچہ مقتدی کو سہو نہ ہوا ہو، صرف امام ہی کو ہوا ہو۔ (۴) سجدۂ سہو کے بعد تشہد نہیں۔ (سججود سہو کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو کتاب السہو کا ابتدائیہ) (۵) بتقاضائے بشریت انبیاء علیہم السلام کوبھی سہو اور نسیان لاحق ہوا ہے لیکن وحی کے پہنچانے میں قطعا نہیں۔