سنن النسائي - حدیث 1169

كِتَابُ التَّطْبِيقِ كَيْفَ التَّشَهُّدُ الْأَوَّلُ شاذ بزيادة " وحده لا شريك له " أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدٍ الرَّقِّيُّ قَالَ حَدَّثَنَا حَارِثُ بْنُ عَطِيَّةَ وَكَانَ مِنْ زُهَّادِ النَّاسِ عَنْ هِشَامٍ عَنْ حَمَّادٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَقُولُ السَّلَامُ عَلَى اللَّهِ السَّلَامُ عَلَى جِبْرِيلَ السَّلَامُ عَلَى مِيكَائِيلَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَقُولُوا السَّلَامُ عَلَى اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ السَّلَامُ وَلَكِنْ قُولُوا التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1169

کتاب: رکوع کے دوران میں تطبیق کا بیان پہلا تشہد کیسے پڑھا جائے؟ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے تو ہم (تشہد میں) کہتے: [السلام علی اللہ، السلام علی جبریل السلام علی میکائیل] اللہ تعالیٰ پر سلام ہو، جبریل پر سلام ہو، میکائیل پر سلام ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم یہ نہ کہو کہ اللہ تعالیٰ پر سلام ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ تو خود سلامتی کا منبع ہے بلکہ تم یوں کہو: [التحیات للہ والصلوات………] ’’تمام آداب، نمازیں اور اچھے کلمات اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں۔ اے نبی! آپ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلام، رحمت اور برکات ہوں۔ ہم پر اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں پر بھی سلام ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں۔ وہ اکیلا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔‘‘
تشریح : اکیلے اکیلے کا نام لینے کی بجائے عباد اللہ الصالحین میں سب فرشتے اور نیک انسان آ جاتے ہیں، لہٰذا یہی درست ہے، البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان الگ ہے، انھیں نہ صرف خصوصاً سلام کہا جائے گا بلکہ خطاب کے صیغے سے انھیں سلام پہنچایا جائے گا ……… صلی اللہ علیہ وسلم……… علاوہ ازیں تشہد میں آپ کو صیغۂ خطاب کے ساتھ سلام اس لیے عرض نہیں کیا جاتا کہ آپ سنتے ہیں، بلکہ صرف اس لیے یہ الفاظ [السلام علیک ایھا النبی] پڑھے جاتے ہیں کہ آپ نے مسلمانوں کو تشہد اسی طرح پڑھنے کا حکم دیا ہے، اس لیے آپ کے حکم کی تعمیل میں یہ الفاظ صرف اس موقع پر پڑھے جاتے ہیں اکیلے اکیلے کا نام لینے کی بجائے عباد اللہ الصالحین میں سب فرشتے اور نیک انسان آ جاتے ہیں، لہٰذا یہی درست ہے، البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان الگ ہے، انھیں نہ صرف خصوصاً سلام کہا جائے گا بلکہ خطاب کے صیغے سے انھیں سلام پہنچایا جائے گا ……… صلی اللہ علیہ وسلم……… علاوہ ازیں تشہد میں آپ کو صیغۂ خطاب کے ساتھ سلام اس لیے عرض نہیں کیا جاتا کہ آپ سنتے ہیں، بلکہ صرف اس لیے یہ الفاظ [السلام علیک ایھا النبی] پڑھے جاتے ہیں کہ آپ نے مسلمانوں کو تشہد اسی طرح پڑھنے کا حکم دیا ہے، اس لیے آپ کے حکم کی تعمیل میں یہ الفاظ صرف اس موقع پر پڑھے جاتے ہیں