سنن النسائي - حدیث 1155

كِتَابُ التَّطْبِيقِ بَاب رَفْعِ الْيَدَيْنِ عَنْ الْأَرْضِ قَبْلَ الرُّكْبَتَيْنِ ضعيف أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ أَنْبَأَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ قَالَ أَنْبَأَنَا شَرِيكٌ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سَجَدَ وَضَعَ رُكْبَتَيْهِ قَبْلَ يَدَيْهِ وَإِذَا نَهَضَ رَفَعَ يَدَيْهِ قَبْلَ رُكْبَتَيْهِ قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ لَمْ يَقُلْ هَذَا عَنْ شَرِيكٍ غَيْرُ يَزِيدَ بْنِ هَارُونَ وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1155

کتاب: رکوع کے دوران میں تطبیق کا بیان اٹھتے وقت ہاتھ زمین سے گھٹنوں سے پہلے اٹھانا حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، جب آپ سجدہ کرتے تو اپنے دونوں گھٹنے اپنے دونوں ہاتھوں سے پہلے رکھتے اور جب اٹھتے تو دونوں ہاتھ گھٹنوں سے پہلے اٹھاتے۔ ابوعبدالرحمن (امام نسائی) رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ یہ روایت شریک سے یزید بن ہارون کے علاوہ کسی نے بھی اس طرح بیان نہیں کی۔ واللہ تعالی اعلم۔
تشریح : (۱) یاں شریک سے قاضی شریک مراد ہیں۔ اس روایت کو اس طرح بیان کرنے میں وہ متفرد ہیں۔ ثقہ راوی (مثلا: ہام) اس روایت کو مرسل، یعنی صحابی کے بغیر براہ راست نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں۔ قاضی شریک حافظے کے لحاظ سے اتنے قوی نہیں کہ ان کی منفرد روایت کو قبول کیا جاسکے۔ امام صاحب کا مقصود یہ ہے کہ یہ روایت مرسل ہے، متصل نہیں، معتبر نہیں۔ دوسرے محدثین، مثلاً: امام ترمذی، دارقطنی اور بیہقی رحمہم اللہ بھی اس فیصلے میں امام صاحب کے ساتھ ہیں۔ (۲) اس حدیث کی دیگر اسناد میں حضرت وائل صحابی کا ذکر نہیں ہے۔ ان کا ذکر کرنے والے راوی متکلم فیہ ہیں، لہٰذا یہ روایت متنازع فیہ ہے۔ حدیث نمبر: ۱۱۵۴ معتبر ہے۔ اس مسئلے پر مزید بحث اس سے قبل فوائد حدیث نمبر: ۱۰۹۲ میں ہوچکی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔ (۱) یاں شریک سے قاضی شریک مراد ہیں۔ اس روایت کو اس طرح بیان کرنے میں وہ متفرد ہیں۔ ثقہ راوی (مثلا: ہام) اس روایت کو مرسل، یعنی صحابی کے بغیر براہ راست نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں۔ قاضی شریک حافظے کے لحاظ سے اتنے قوی نہیں کہ ان کی منفرد روایت کو قبول کیا جاسکے۔ امام صاحب کا مقصود یہ ہے کہ یہ روایت مرسل ہے، متصل نہیں، معتبر نہیں۔ دوسرے محدثین، مثلاً: امام ترمذی، دارقطنی اور بیہقی رحمہم اللہ بھی اس فیصلے میں امام صاحب کے ساتھ ہیں۔ (۲) اس حدیث کی دیگر اسناد میں حضرت وائل صحابی کا ذکر نہیں ہے۔ ان کا ذکر کرنے والے راوی متکلم فیہ ہیں، لہٰذا یہ روایت متنازع فیہ ہے۔ حدیث نمبر: ۱۱۵۴ معتبر ہے۔ اس مسئلے پر مزید بحث اس سے قبل فوائد حدیث نمبر: ۱۰۹۲ میں ہوچکی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔