سنن النسائي - حدیث 1153

كِتَابُ التَّطْبِيقِ بَاب الِاسْتِوَاءِ لِلْجُلُوسِ عِنْدَ الرَّفْعِ مِنْ السَّجْدَتَيْنِ صحيح أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ أَنْبَأَنَا هُشَيْمٌ عَنْ خَالِدٍ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فَإِذَا كَانَ فِي وَتْرٍ مِنْ صَلَاتِهِ لَمْ يَنْهَضْ حَتَّى يَسْتَوِيَ جَالِسًا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1153

کتاب: رکوع کے دوران میں تطبیق کا بیان دوسرے سجدے سے سر اٹھانے کے بعد سیدھا بیٹھنا حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھا۔ جب آپ اپنی نماز کی طاق رکعت میں ہوتے تو آپ کھڑے نہیں ہوتے تھے حتی کہ پہلے سیدھے بیٹھ جاتے۔
تشریح : طاق رکعت کے بعد اگلی رکعت کے لیے کھڑے ہونے سے قبل سیدھا بیٹھنا جلسۂ استراحت کہلاتا ہے اور یہ ضروری ہے۔ اس حدیث کے علاوہ اور بھی کئی احادیث میں اس کا صراحتاً ذکر ہے۔ قولاً بھی اور فعلاً بھی۔ بعض حضرات جو اس کے قائل نہیں وہ اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑھاپے پر محمول کرتے ہیں کہ بڑھاپے کی وجہ سے آپ کو بیٹھنا پڑتا تھا، نماز کی سنت کے طور پر نہیں۔ مگر ان کے پاس اس تاویل کی کوئی دلیل نہیں جب کہ آنکھوں سے دیکھنے والے صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم تو اسے بڑھاپے کی بنا پر نہیں سمجھتے تھے جیسا کہ حضرت ابوحمید رضی اللہ عنہ کا دس صحابہ کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بیان میں اس امر کا ذکر کرنا اور ان صحابہ کا خاموش رہنا واضح دلیل ہے۔ مسیی الصلاۃ والی قولی روایت بھی صریح ہے۔ اگر کسی روایت میں اس کا ذکر نہیں ہے تو وہ اختصار کے پیش نظر ہے۔ کسی چیز کا حکم مجموعی طور پر احادیث سے اخذ کرنا چاہیے، لہٰذا کسی حدیث میں اس کا عدم ذکر اس کے وجوب کے خلاف نہیں۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کا خیال بعد والوں کے خیال سے یقیناً زیادہ معتبر ہے۔ ویسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بڑھاپے مں بھی اتنے کمزور نہیں ہوئے تھے کہ ایک مسلمہ مسئلے کو چھوڑنا یا تبدیل کرنا پڑ گیا۔ طاق رکعت کے بعد اگلی رکعت کے لیے کھڑے ہونے سے قبل سیدھا بیٹھنا جلسۂ استراحت کہلاتا ہے اور یہ ضروری ہے۔ اس حدیث کے علاوہ اور بھی کئی احادیث میں اس کا صراحتاً ذکر ہے۔ قولاً بھی اور فعلاً بھی۔ بعض حضرات جو اس کے قائل نہیں وہ اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑھاپے پر محمول کرتے ہیں کہ بڑھاپے کی وجہ سے آپ کو بیٹھنا پڑتا تھا، نماز کی سنت کے طور پر نہیں۔ مگر ان کے پاس اس تاویل کی کوئی دلیل نہیں جب کہ آنکھوں سے دیکھنے والے صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم تو اسے بڑھاپے کی بنا پر نہیں سمجھتے تھے جیسا کہ حضرت ابوحمید رضی اللہ عنہ کا دس صحابہ کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بیان میں اس امر کا ذکر کرنا اور ان صحابہ کا خاموش رہنا واضح دلیل ہے۔ مسیی الصلاۃ والی قولی روایت بھی صریح ہے۔ اگر کسی روایت میں اس کا ذکر نہیں ہے تو وہ اختصار کے پیش نظر ہے۔ کسی چیز کا حکم مجموعی طور پر احادیث سے اخذ کرنا چاہیے، لہٰذا کسی حدیث میں اس کا عدم ذکر اس کے وجوب کے خلاف نہیں۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کا خیال بعد والوں کے خیال سے یقیناً زیادہ معتبر ہے۔ ویسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بڑھاپے مں بھی اتنے کمزور نہیں ہوئے تھے کہ ایک مسلمہ مسئلے کو چھوڑنا یا تبدیل کرنا پڑ گیا۔