كِتَابُ التَّطْبِيقِ بَاب هَلْ يَجُوزُ أَنْ تَكُونَ سَجْدَةٌ أَطْوَلَ مِنْ سَجْدَة صحيح أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَلَّامٍ قَالَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ قَالَ أَنْبَأَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي يَعْقُوبَ الْبَصْرِيُّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي إِحْدَى صَلَاتَيْ الْعِشَاءِ وَهُوَ حَامِلٌ حَسَنًا أَوْ حُسَيْنًا فَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَضَعَهُ ثُمَّ كَبَّرَ لِلصَّلَاةِ فَصَلَّى فَسَجَدَ بَيْنَ ظَهْرَانَيْ صَلَاتِهِ سَجْدَةً أَطَالَهَا قَالَ أَبِي فَرَفَعْتُ رَأْسِي وَإِذَا الصَّبِيُّ عَلَى ظَهْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ سَاجِدٌ فَرَجَعْتُ إِلَى سُجُودِي فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ قَالَ النَّاسُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّكَ سَجَدْتَ بَيْنَ ظَهْرَانَيْ صَلَاتِكَ سَجْدَةً أَطَلْتَهَا حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ قَدْ حَدَثَ أَمْرٌ أَوْ أَنَّهُ يُوحَى إِلَيْكَ قَالَ كُلُّ ذَلِكَ لَمْ يَكُنْ وَلَكِنَّ ابْنِي ارْتَحَلَنِي فَكَرِهْتُ أَنْ أُعَجِّلَهُ حَتَّى يَقْضِيَ حَاجَتَهُ
کتاب: رکوع کے دوران میں تطبیق کا بیان
کیا ایک سجدہ دوسرے سجدے سے لمبا ہوسکتا ہے؟
حضرت شداد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مغرب یا عشاء کی نماز کے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ نے حضرت حسن یا حسین رضی اللہ عنہما کو اٹھا رکھا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (نماز پڑھانے کے لیے) آگے بڑھے اور بچے کو نیچے بٹھا دیا۔ پھر نماز کے لیے تکبیر تحریمہ کہی اور نماز شروع کر دی۔ نماز کے دوران میں آپ نے ایک سجدہ بہت لمبا کر دیا۔ میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو بچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پر بیٹھا تھا اور آپ سجدے میں تھے۔ میں دوبارہ سجدے میں چلا گیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پوری فرمائی تو لوگوں نے گزارش کی: اے اللہ کے رسول! آپ نے نماز کے دوران میں ایک سجدہ اس قدر لمبا کیا کہ ہم نے سمجھا کوئی حادثہ ہوگیا ہے یا آپ کو وحی آنے لگی ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’ایسا کچھ بھی نہیں ہوا بلکہ میرا بیٹا میری پشت پر سوار ہوگیا تو میں نے پسند نہ کیا کہ اسے جلدی میں ڈالوں (فوراً اتار دوں) حتی کہ وہ اپنا دل خوش کرلے۔‘‘
تشریح :
(۱) ’’حادثہ‘‘ مرض یا وفات سے کنایہ ہے، تبھی تو صحابی کو تشویش ہوئی اور سر اٹھا کر دیکھا۔ (۲) بلاوجہ سجدے کے درمیان سر اٹھانا منع ہے مگر کوئی عذر ہو، مثلاً: پیشانی کے نیچے کوئی تکلیف دہ چیز آگئی ہو یا سر میں شدید درد محسوس ہو یا امام کی حالت دیکھنا مقصود ہو تو ضرورت کے مطابق سر اٹھایا جا سکتا ہے۔ عذر ختم ہونے پر دوبارہ سجدے میں چلا جائے۔ یہ دو سجدے نہیں بنیں گے، ایک ہی رہے گا کیونکہ نیت معتبر ہے۔ (۳) بچوں کی خوشی کا اس قدر لحاظ رکھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے در یتیم ہی سے ہوسکتا ہے۔ یقیناً ایسا فعل دگنے ثواب کا حامل ہے کہ عبادت میں بھی اضافہ ہوا اور اللہ تعالیٰ کی چھوٹی سی مخلوق کی دل جوئی بھی ہوئی۔ (۴) قرابت کے اعتبار سے نواسے کو بیٹا کہنا درست ہے اگرچہ وہ وراثت کے اعتبار سے بیٹے کی طرح نہیں ہوتا۔
(۱) ’’حادثہ‘‘ مرض یا وفات سے کنایہ ہے، تبھی تو صحابی کو تشویش ہوئی اور سر اٹھا کر دیکھا۔ (۲) بلاوجہ سجدے کے درمیان سر اٹھانا منع ہے مگر کوئی عذر ہو، مثلاً: پیشانی کے نیچے کوئی تکلیف دہ چیز آگئی ہو یا سر میں شدید درد محسوس ہو یا امام کی حالت دیکھنا مقصود ہو تو ضرورت کے مطابق سر اٹھایا جا سکتا ہے۔ عذر ختم ہونے پر دوبارہ سجدے میں چلا جائے۔ یہ دو سجدے نہیں بنیں گے، ایک ہی رہے گا کیونکہ نیت معتبر ہے۔ (۳) بچوں کی خوشی کا اس قدر لحاظ رکھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے در یتیم ہی سے ہوسکتا ہے۔ یقیناً ایسا فعل دگنے ثواب کا حامل ہے کہ عبادت میں بھی اضافہ ہوا اور اللہ تعالیٰ کی چھوٹی سی مخلوق کی دل جوئی بھی ہوئی۔ (۴) قرابت کے اعتبار سے نواسے کو بیٹا کہنا درست ہے اگرچہ وہ وراثت کے اعتبار سے بیٹے کی طرح نہیں ہوتا۔