سنن النسائي - حدیث 1134

كِتَابُ التَّطْبِيقِ نَوْعٌ آخَر صحيح أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ أَنْبَأَنَا جَرِيرٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ عَنْ الْمُسْتَوْرِدِ بْنِ الْأَحْنَفِ عَنْ صِلَةَ بْنِ زُفَرَ عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَاسْتَفْتَحَ بِسُورَةِ الْبَقَرَةِ فَقَرَأَ بِمِائَةِ آيَةٍ لَمْ يَرْكَعْ فَمَضَى قُلْتُ يَخْتِمُهَا فِي الرَّكْعَتَيْنِ فَمَضَى قُلْتُ يَخْتِمُهَا ثُمَّ يَرْكَعُ فَمَضَى حَتَّى قَرَأَ سُورَةَ النِّسَاءِ ثُمَّ قَرَأَ سُورَةَ آلِ عِمْرَانَ ثُمَّ رَكَعَ نَحْوًا مِنْ قِيَامِهِ يَقُولُ فِي رُكُوعِهِ سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ وَأَطَالَ الْقِيَامَ ثُمَّ سَجَدَ فَأَطَالَ السُّجُودَ يَقُولُ فِي سُجُودِهِ سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى لَا يَمُرُّ بِآيَةِ تَخْوِيفٍ أَوْ تَعْظِيمٍ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ إِلَّا ذَكَرَهُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1134

کتاب: رکوع کے دوران میں تطبیق کا بیان (سجدے میں) ایک اور قسم کی دعا حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ آپ نے (سورۂ فاتحہ کے بعد) سورۂ بقرہ شروع کی۔ آپ نے سو آیات پڑھ لیں مگر رکوع نہ فرمایا بلکہ قراءت جاری رکھی۔ میں نے سوچا: آپ دو رکعات میں پوری کرلیں گے مگر آپ نے قراءت جاری رکھی۔ میں نے (دل میں) کہا: یہ سورت ختم کرکے رکوع فرمائیں گے مگر آپ پڑھتے رہے حتی کہ سورۂ نساء بھی پڑھ ڈالی۔ پھر سورۂ آل عمران پڑھی، پھر تقریباً اپنے قیام کے برابر رکوع فرمایا۔ اپنے رکوع میں کہتے رہے: [سبحان ربی العظیم، سبحان ربی العظیم، سبحان ربی العظیم] پر سر اٹھایا اور فرمایا: [سمع اللہ لمن حمدہ ربنا لک الحمد] اور بہت دیر تک کھڑے (کچھ پڑھتے) رہے۔ پھر سجدہ فرمایا اور بہت لمبا سجدہ فرمایا۔ اور سجدے میں پڑھتے رہے: [سبحان ربی الاعلی، سبحان ربی الاعلی، سبحان ربی الاعلی] آپ جونہی کوئی ڈرانے والی یا اللہ تعالیٰ کی عظمت والی آیت پڑھتے تو (اس کے مناسب) دعا اور اللہ کا ذکر فرماتے۔
تشریح : (۱) آپ نے سورۂ نساء پہلے پڑھی، آل عمران بعد میں۔ اس سے معلوم ہوا کہ قراءت میں سورتوں کی ترتیب میں تقدیم و تاخیر جائز ہے۔ (۲) اس حدیث میں رکوع اور سجدے کی مذکورہ تسبیحات مختصر اور جامع ہیں، اس لیے امت میں یہی رائج ہوچکی ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ فرض نماز میں ان کے علاوہ دوسری تسبیحات یا ادعیہ جائز ہی نہیں بلکہ اپنے ذوق اور جماعت کی صورت میں، مقتدیوں اور امام کا لحاظ رکھتے ہوئے کوئی سی تسبیحات پڑھی جا سکتی ہیں۔ (۳) قراءت قرآن کے وقت الفاظ و معانی کی طرف پوری توجہ دینا اور پھر ان سے متاثر ہونا، اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت کا سوال، سزا اور عذاب سے تعوذ، صالحین کی معیت اور مفسدین سے بچاؤ، دخول جنت اور جہنم سے نجات کی دعائیں کرنا نمازی کے خشوع خضوع کی دلیل ہے اور یہی نماز سے مطلوب ہے۔ اس میں فرض اور نفل نماز کا کوئی فرق نہیں، البتہ مقتدیوں کا لحاظ رکھنا چاہیے۔ (۴) کیا مقتدی بھی امام کی قراءت میں کسی سوال کا جواب، حکم کی بجا آوری اور رحمت کی دعا وغیرہ کرسکتے ہیں؟ علمائے امت کا اس میں اختلاف ہے۔ کچھ عدم جواز کے قائل ہیں اور کچھ نے عمومات سے استدلال کرتے ہوئے جواز کا فتویٰ دیا ہے۔ راجح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ صرف قاری جواب دے گا کیونکہ حدیث میں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب دینے کا ذکر ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود قراءت کر رہے تھے کیونکہ آپ امام تھے۔ اسی طرح منفرد بھی جواب دے گا کیونکہ وہ بھی خود قراءت کرتا ہے، مقتدی جواب نہیں دے گا کیونکہ وہ فاتحہ کے علاوہ قراءت نہیں کرتا۔ واللہ أعلم۔ (۱) آپ نے سورۂ نساء پہلے پڑھی، آل عمران بعد میں۔ اس سے معلوم ہوا کہ قراءت میں سورتوں کی ترتیب میں تقدیم و تاخیر جائز ہے۔ (۲) اس حدیث میں رکوع اور سجدے کی مذکورہ تسبیحات مختصر اور جامع ہیں، اس لیے امت میں یہی رائج ہوچکی ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ فرض نماز میں ان کے علاوہ دوسری تسبیحات یا ادعیہ جائز ہی نہیں بلکہ اپنے ذوق اور جماعت کی صورت میں، مقتدیوں اور امام کا لحاظ رکھتے ہوئے کوئی سی تسبیحات پڑھی جا سکتی ہیں۔ (۳) قراءت قرآن کے وقت الفاظ و معانی کی طرف پوری توجہ دینا اور پھر ان سے متاثر ہونا، اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت کا سوال، سزا اور عذاب سے تعوذ، صالحین کی معیت اور مفسدین سے بچاؤ، دخول جنت اور جہنم سے نجات کی دعائیں کرنا نمازی کے خشوع خضوع کی دلیل ہے اور یہی نماز سے مطلوب ہے۔ اس میں فرض اور نفل نماز کا کوئی فرق نہیں، البتہ مقتدیوں کا لحاظ رکھنا چاہیے۔ (۴) کیا مقتدی بھی امام کی قراءت میں کسی سوال کا جواب، حکم کی بجا آوری اور رحمت کی دعا وغیرہ کرسکتے ہیں؟ علمائے امت کا اس میں اختلاف ہے۔ کچھ عدم جواز کے قائل ہیں اور کچھ نے عمومات سے استدلال کرتے ہوئے جواز کا فتویٰ دیا ہے۔ راجح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ صرف قاری جواب دے گا کیونکہ حدیث میں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب دینے کا ذکر ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود قراءت کر رہے تھے کیونکہ آپ امام تھے۔ اسی طرح منفرد بھی جواب دے گا کیونکہ وہ بھی خود قراءت کرتا ہے، مقتدی جواب نہیں دے گا کیونکہ وہ فاتحہ کے علاوہ قراءت نہیں کرتا۔ واللہ أعلم۔