سنن النسائي - حدیث 1131

كِتَابُ التَّطْبِيقِ نَوْعٌ آخَر صحيح أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ أَنْبَأَنَا جَرِيرٌ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ فَقَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَوَجَدْتُهُ وَهُوَ سَاجِدٌ وَصُدُورُ قَدَمَيْهِ نَحْوَ الْقِبْلَةِ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ وَأَعُوذُ بِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنَتْ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1131

کتاب: رکوع کے دوران میں تطبیق کا بیان (سجدے میں) ایک اور قسم کی دعا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، فرماتی ہیں: ایک رات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (بستر پر) نہ پایا۔ (تلاش کیا) تو آپ سجدے کی حالت میں ملے اور آپ کی انگلیاں قبلے کی طرف مڑی ہوئی تھیں۔ میں نے سنا، آپ فرما رہے تھے: [اعوذ برضاک من سخطک ……… علی نفسک] ’’(اے اللہ!) میں تیرے غصے سے (بچنے کے لیے) تیری رضا مندی کی پناہ میں آتا ہوں۔ اور تیری سزا سے (بچنے کے لیے) تیری معافی کی پناہ میں آتا ہوں۔ اور تجھ سے (تیرے عذاب سے بچنے کے لیے) تیری پناہ میں آتا ہوں۔ میں تیری پوری تعریف نہیں کرسکتا۔ تو اسی طرح ہے جس طرح تو نے خود اپنی تعریف کی ہے۔‘‘
تشریح : اپنی تعریف آپ کرنا ہم میں معیوب ہے کیونکہ مبالغہ آرائی اور تکبر کا ڈر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حق میں ہر مبالغہ حقیقت ہے اور اللہ تعالیٰ ہر بزرگی اور بڑائی کا مالک ہے۔ اسے تکبر جچتا ہے، لہٰذا وہ اپنی تعریف آپ کرتا ہے۔ اپنی تعریف آپ کرنا ہم میں معیوب ہے کیونکہ مبالغہ آرائی اور تکبر کا ڈر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حق میں ہر مبالغہ حقیقت ہے اور اللہ تعالیٰ ہر بزرگی اور بڑائی کا مالک ہے۔ اسے تکبر جچتا ہے، لہٰذا وہ اپنی تعریف آپ کرتا ہے۔