سنن النسائي - حدیث 1125

كِتَابُ التَّطْبِيقِ نَوْعٌ آخَر صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ قَالَ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ قَالَ قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَقَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَضْجَعِهِ فَجَعَلْتُ أَلْتَمِسُهُ وَظَنَنْتُ أَنَّهُ أَتَى بَعْضَ جَوَارِيهِ فَوَقَعَتْ يَدِي عَلَيْهِ وَهُوَ سَاجِدٌ وَهُوَ يَقُولُ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1125

کتاب: رکوع کے دوران میں تطبیق کا بیان (سجدے میں) ایک اور قسم کی دعا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: (ایک دفعہ) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بستر پر نہ پایا تو میں آپ کو ڈھونڈنے لگی۔ میں نے خیال کیا کہ آپ اپنی کسی لونڈی کے پاس چلے گئے ہوں گے۔ (میں نے ٹٹولنا شروع کیا) تو میرا ہاتھ آپ کو لگا۔ آپ سجدے کی حالت میں تھے اور پڑھ رہے تھے: [اللھم! اغفرلی ما اسررت وما اعلنت] ’’اے اللہ! میرے گناہ معاف فرما جو میں نے چھپ کر کیے اور جو میں نے علانیہ کیے۔‘‘
تشریح : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ گمان عورت کی فطرت کے مطابق ہے ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ محبت حضرت عائشہ سے فرماتے تھے۔ دیکھیے: (صحیح البخاری، فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم، حدیث: ۳۶۶۲، و صحیح مسلم، فضائل الصحابۃ، حدیث: ۲۳۸۴) آپ انھیں چھوڑ کر کہاں جاسکتے تھے؟ دراصل یہ دلیل ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انتہا درجے کی محبت تھی۔ اس قسم کے ایک اور موقع پر آپ نے فرمایا تھا، ’’کیا تو سمجھتی ہے کہ اللہ اور اس کا رسول تجھ پر ظلم کریں گے؟‘‘ (صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: ۹۷۴) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ گمان عورت کی فطرت کے مطابق ہے ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ محبت حضرت عائشہ سے فرماتے تھے۔ دیکھیے: (صحیح البخاری، فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم، حدیث: ۳۶۶۲، و صحیح مسلم، فضائل الصحابۃ، حدیث: ۲۳۸۴) آپ انھیں چھوڑ کر کہاں جاسکتے تھے؟ دراصل یہ دلیل ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انتہا درجے کی محبت تھی۔ اس قسم کے ایک اور موقع پر آپ نے فرمایا تھا، ’’کیا تو سمجھتی ہے کہ اللہ اور اس کا رسول تجھ پر ظلم کریں گے؟‘‘ (صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: ۹۷۴)