كِتَابُ التَّطْبِيقِ بَاب السُّجُودِ عَلَى الثِّيَاب صحيح أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ خَالِدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ هُوَ السُّلَمِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي غَالِبٌ الْقَطَّانُ عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِيِّ عَنْ أَنَسٍ قَالَ كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالظَّهَائِرِ سَجَدْنَا عَلَى ثِيَابِنَا اتِّقَاءَ الْحَرِّ
کتاب: رکوع کے دوران میں تطبیق کا بیان
کپڑوں پر سجدہ کرنا
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے دوپہر کے وقت سخت گرمی میں نماز پڑھتے تو گرمی سے بچنے کے لیے اپنے کپڑوں پر سجدہ کر لیا کرتے تھے۔
تشریح :
اگر الگ کپڑا مراد ہے جیسے آج کل مصلیٰ وغیرہ ہوتا ہے تو پھر ظاہر ہے کوئی اشکال و اعتراض نہیں۔ ان پر بلاشک و شبہ نماز پڑھی جا سکتی ہے، البتہ اگر پہنے ہوئے کپڑے مراد ہوں، مثلاً: آستینیں آگے بڑھا کر ان پر ہاتھ رکھ لیے جائیں اور پگڑی نیچے کرکے اس پر ماتھا رکھ لیا جائےتو ضرورت کے وقت یہ بھی جائز ہے، مثلاً: سخت گرمی یا سردی سے بچنا،البتہ مٹی سے چہرے اور ہتھیلیوں کو بچانے کے لیے ایسا کرنا ممنوع ہے کہ یہ تکلف ہے جبکہ سری گرمی سے بچنا انسان کی ضرورت ہے۔
اگر الگ کپڑا مراد ہے جیسے آج کل مصلیٰ وغیرہ ہوتا ہے تو پھر ظاہر ہے کوئی اشکال و اعتراض نہیں۔ ان پر بلاشک و شبہ نماز پڑھی جا سکتی ہے، البتہ اگر پہنے ہوئے کپڑے مراد ہوں، مثلاً: آستینیں آگے بڑھا کر ان پر ہاتھ رکھ لیے جائیں اور پگڑی نیچے کرکے اس پر ماتھا رکھ لیا جائےتو ضرورت کے وقت یہ بھی جائز ہے، مثلاً: سخت گرمی یا سردی سے بچنا،البتہ مٹی سے چہرے اور ہتھیلیوں کو بچانے کے لیے ایسا کرنا ممنوع ہے کہ یہ تکلف ہے جبکہ سری گرمی سے بچنا انسان کی ضرورت ہے۔